کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 545
قبروں میں مدفوں ہیں ۔ اس بات کو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھنے والا آپ کو اس جسم میں نہیں دیکھتا ہے جو آپ کا حقیقی جسم ہے اور جس جسم کے ساتھ آپ اپنی وفات سے پہلے تھے، بلکہ خواب دیکھنے والا آپ کو آپ کے حقیقی جسم کے عین مطابق تمثیلی جسم میں دیکھتا ہے جو اللہ تعالیٰ آپ کی روح کو عطا کر دیتا ہے اور اس جسم کی صورت گری میں شیطان کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اس بات سے عاجز اور درماندہ بنا دیا ہے کہ وہ آپ کی شکل اختیار کرے، یا آپ کا مماثل اور مشابہ بن کر ظاہر ہو، اس بات کو قابل فہم بنانے اور اس کو ذہنوں سے قریب تر کرنے کے لیے میں ایک مثال دیتا ہوں : ہم میں سے ہر شخص خواب دیکھتا ہے اور خواب میں وہ مر جانے والوں کو بھی دیکھتا ہے اور ان کو بھی جو اس کی طرح زندہ ہیں ، تو کیا جو زندہ انسان کسی کو اس کے خواب میں نظر آتے ہیں اور اس سے باتیں کرتے ہیں اور خواب دیکھنے والا بھی ان سے باتیں کرتا ہے اپنے حقیقی جسموں میں ہوتے ہیں ؟ ہرگز نہیں ، اس لیے کہ ہر شخص کو یہ بات معلوم ہو گی کہ خواب میں نظر آنے والے خواب دیکھنے والے کو اس جگہ نہیں نظر آتے جہاں وہ موجود ہوتے ہیں اور نہ اس حالت اور ہیئت ہی میں نظر آتے ہیں جو اس وقت فعلاً اور واقعتا ان کی حالت اور ہیئت ہوتی ہے، مثلاً: ابراہیم علیہ السلام نے خواب میں یہ دیکھا تھا کہ وہ اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کر رہے ہیں قرآن کے مطابق انہوں نے بیٹے سے اپنے اس خواب کا مضمون بیان کرنے کے بجائے اس کی منظر کشی کرتے ہوئے فرمایا تھا: ﴿یَابُنَیَّ اِِنِّی اَرَی فِی الْمَنَامِ اَنِّی اَذْبَحُکَ﴾ (الصافات: ۱۰۲) ’’کہا، اے میرے پیارے بیٹے! درحقیقت میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں حقیقت میں تجھے ذبح کر رہا ہوں ۔‘‘ یہ تھا خواب کا منظر جس کو جوں کا توں ابراہیم علیہ السلام نے اسماعیل علیہ السلام کے سامنے رکھ دیا تھا۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس وقت ابراہیم علیہ السلام سو رہے تھے، کیونکہ خواب سونے والا ہی دیکھتا ہے، جبکہ خواب یہ منظر پیش کر رہا ہے کہ وہ اس وقت سو نہیں رہے تھے، بلکہ ہاتھ میں چھری لیے ہوئے ’’ذبح‘‘ کا فعل انجام دے رہے تھے اور ان کی یہ دوسری حالت اور ہیئت پہلی حالت اور ہیئت سے بالکل مختلف تھی اور جب یہ طے ہے کہ ان کی پہلی حالت حقیقی تھی تو پھر یہ لازمی قرار پایا کہ ان کی یہ دوسری حالت تمثیلی تھی جو ابھی تک وجود میں بھی نہیں آئی تھی، بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی روح کو وہ شکل اور کیفیت عطا کر دی تھی جو خواب کو فعل کی صورت دیتے وقت ظاہر ہونے والی تھی۔ رہے اسماعیل علیہ السلام تو امر واقعہ کے اعتبار سے وہ بھی بستر پر سو رہے ہوں گے، جبکہ خواب ان کا جو منظر پیش کر رہا ہے وہ یہ ہے کہ وہ پیشانی کے بل گرے ہوئے ہیں اور باپ پیچھے سے ان کی گردن پر چھری چلانے والے ہیں ؛ ان کی بھی یہ صفت اور کیفیت حقیقی اور واقعی نہیں تھی، بلکہ ابھی وجود میں بھی نہیں آئی تھی اور علام الغیوب نے ان کو اس صفت