کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 544
آپ کا ’’جسم اطہر‘‘ قبر مبارک میں ہے اور قیامت تک قبر ہی میں رہے گا، لہٰذا نہ آپ اپنی قبر مبارک سے کبھی نکلے ہیں اور نہ ایسا کرنا بحکم الٰہی آپ کے لیے ممکن ہی ہے، کیونکہ قبر مبارک سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا باہر آنا یہ معنی رکھتا ہے کہ آپ ’’عالم برزخ‘‘ سے ’’عالم دنیا‘‘ میں واپس آتے رہتے ہیں ، جبکہ آپ کی وفات نے اس دنیا سے آپ کا رشتہ ہمیشہ کے لیے منقطع کر دیا ہے اور اس دنیا سے انتقال کر جانے والے سے متعلق یہ اللہ کا فیصلہ ہے کہ وہ اس میں دوبارہ واپس نہیں آئے گا، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق اللہ نے جابر رضی اللہ عنہ کے شہید ہو جانے والے والد عبداللہ رضی اللہ عنہ کی دنیا میں واپسی کی درخواست کے جواب میں فرما دیا تھا کہ:
((إنہ قد سبق منی أنہم لا یرجعون)) ’’درحقیقت میرا یہ فیصلہ ازل ہی میں جاری ہو چکا ہے کہ مر جانے والے دنیا میں واپس نہیں جائیں گے۔‘‘[1]
درحقیقت خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے والا آپ کے شبیہ اور مثیل کو دیکھتا ہے، یعنی آپ کا جسم اطہر تو آپ کی قبر مبارک ہی میں رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ آپ کی روح مطہر کو اُسی طرح کا جسم عطا کر دیتا ہے اور اس کو گویائی بھی دے دیتا ہے جو آپ کے حقیقی جسم اور گویائی کے بالکل مطابق ہوتی ہے اور خواب دیکھنے والا آپ کی جو آواز سنتا ہے وہ آپ کی حقیقی آواز کے مانند ہی ہوتی ہے، البتہ یہ قبر مبارک میں مدفون جسم اطہر کی زبان سے نہیں ، بلکہ اس جسم کی زبان سے نکلتی ہے جو اللہ تعالیٰ آپ کی روح کو عطا کر دیتا ہے۔
میں نے ابھی جو کچھ عرض کیا ہے اس کو سمجھنے کے لیے ’’اسراء اور معراج‘‘ کے واقعہ کو ذہنوں میں تازہ کر لیجیے، چنانچہ متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی احادیث کے مطابق ’’اسراء‘‘ کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد اقصیٰ میں تمام انبیاء اور رسولوں کی نماز میں امامت فرمائی تھی، پھر معراج کے موقع پر، مختلف آسمانوں پر ان میں سے بعض سے آپ کی ملاقات اور گفتگو بھی ہوئی تھی، تو ان موقعوں پر یہ انبیاء اور رسول اپنے ان حقیقی جسموں میں ظاہر نہیں ہوئے تھے جن کے ساتھ وہ اپنی دنیوی زندگیوں میں تھے، کیونکہ یہ جسم تو ان کی قبروں میں مدفون ہیں اور قبل از قیامت ان جسموں کے ساتھ اپنی قبروں سے نکل کر کسی زندہ انسان سے ان کا ملنا محال ہے اور جب قیامت قائم ہو گی اس وقت بحکم الٰہی یہ انبیاء اور رسول علیہم السلام اپنی قبروں سے باہر نکلیں گے اور ہمارے نبی اور رسول محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبر سے باہر نکلنے والوں میں پہلے ہوں گے۔[2]
لہٰذا معلوم ہوا کہ اسراء اور معراج میں جن انبیاء اور رسولوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز پڑھی اور آسمانوں پر جن کو آپ نے دیکھا تھا اور جن سے آپ نے باتیں کی تھیں وہ اپنے حقیقی جسموں میں نہیں تھے، بلکہ ایسے جسموں میں تھے جو اللہ تعالیٰ نے ان کی روحوں کو عطا کر دیا تھا اور ان کے یہ عارضی جسم ان کے ان جسموں کے عین مطابق تھے جو
[1] ترمذی: ۳۰۱۰۔ ابن ماجہ: ۱۸۷، ۲۸۵
[2] مسلم: ۲۲۷۸