کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 541
اس کی کوئی سند نہیں بیان کی ہے، جیسا کہ حافظ سخاوی نے ’’المقاصد الحسنہ‘‘ میں لکھا ہے۔ سخاوی نے ایک دوسری روایت امام بیہقی کی ’’شعب الایمان‘‘ کے حوالہ سے نقل کی ہے جس کے الفاظ ہیں : ((قال موسی علیہ السلام : یا رب أ قریب أنت فأناجیک، أو بعید فأنادیک، فقال لہ: أنا جلیس من ذکرنی…)) ’’اے میرے رب! کیا تو قریب ہے کہ تجھ سے سرگوشی کروں ، یا تو بعید ہے کہ تجھ کو پکاروں ؟ تو اللہ نے ان سے فرمایا: اے موسی! میں اس کا ہم نشین ہوں جو مجھے یاد کرتا ہے۔‘‘ حافظ سخاوی نے اس روایت اور اس کی سند پر کوئی حکم نہیں لگایا ہے، یہ روایت حسین بن حفص نے سفیان ثوری سے کی ہے۔ امام ابن ابی حاتم نے اپنی کتاب ’’الجرح و التعدیل‘‘ میں اس کی ثقاہت اور عدم ثقاہت کے بارے میں کچھ نہیں لکھا ہے۔[1] حافظ ابن حجر نے ’’تقریب التہذیب‘‘[2]میں حسین بن حفص کو ’’صدوق کہا ہے جو کسی کے ثقہ ہونے کی دلیل نہیں ہے۔ یاد رہے کہ حدیث: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول، فعل اور تقریر کا نام ہے جس کی نسبت آپ سے ثابت ہو، لہٰذا جو قول یا فعل یا تقریر آپ کی نسبت سے صحیح اور ثابت نہ ہو اس کو حدیث کہنا، یا یہ کہنا کہ ’’یہ معنًا ثابت ہے‘‘ یا روایت بالمعنیٰ کہنا‘‘ بہت بڑی جسارت ہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر افترا ہے، جس کا انجام معلوم ہے اور اگر اس کا مقصد کسی باطل نظریہ یا عقیدہ کو درست ثابت کرنا ہو تو اس کی سنگینی دوچند ہو جاتی ہے اور اس سے اس بات کا یقین ہو جاتا ہے کہ ایسا طرز عمل اختیار کرنے والے کو اپنا عقیدہ اور نظریہ عزیز ہے جس کو صحیح ثابت کرنے کے لیے وہ ہر قدم اٹھا سکتا ہے، اللہ و رسول کی اطاعت اس کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ حدیث کشفی: ’’صوفی شیخ‘‘ کے خود ساختہ مقام و مرتبے کو بیان کرنے والی جھوٹی روایتوں کو روایت بالمعنی کہہ کر حدیث قرار دینے کے بعد جب ’’قطب العالم‘‘ حاجی امداد اللہ کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ لوگوں کو تو یہ معلوم ہے کہ حدیث کسے کہتے ہیں اور کسی حدیث کو معلوم کرنے کا طریقہ کیا ہے؟ ایسی صورت میں اگر کوئی یہ پوچھ بیٹھے کہ حضرت! اس ’’روایت بالمعنی‘‘ کی رو سے تو ہر بے راہ رو، ہر بدعقیدہ اور ہر مبتدع کسی بھی قول اور عبارت کو روایت بالمعنی کہہ کر حدیث قرار دے سکتا ہے، پھر اس کو کیا جواب دیا جائے گا، اس اشکال کو دور کرنے کے لیے ’’شیخ العرب و العجم‘‘ نے ایک دوسرا جھوٹ گھڑ کر پیش کر دیا، فرماتے ہیں : ’’حدیث کی دو نوع ہیں : (۱) حدیث بالمعنی المتعارف اور (۲) حدیث کشفی۔ چنانچہ فرمایا حضرت رسالت
[1] الجرح والتعدیل ، ص ۵۷، ج۳ ، ترجمہ: ۲۵۱۷ [2] ترجمہ ۱۳۱۹