کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 540
روایت بالمعنی: حاجی امداد اللہ اور ان کے مرید مولانا تھانوی ’’روایت بالمعنی‘‘ کی تعبیر بہت استعمال کرتے ہیں اور اپنی کتابوں اور اپنے مریدوں کی مجلسوں میں جھوٹی اور بے بنیاد روایتیں نقل کرنے کے بعد عام طور پر یہ دعویٰ کر دیتے تھے کہ یہ روایت بالمعنی ہے، اس سے ان کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ حدیث صحیح تو ہے، البتہ الفاظ حدیث کے نہیں ہیں ، یہ دراصل ایک فریب ہے جو یہ اور دوسرے صوفیا اپنے مریدوں کو دیتے رہے ہیں ۔ حاجی امداد اللہ تو حدیث کی ابجد سے بھی واقف نہیں تھے، رہے مولانا تھانوی تو وہ اگرچہ عالم تھے، لیکن حدیث کے علم سے وہ بھی بے بہرہ تھے۔ محدثین کے نزدیک روایت بالمعنی کا مطلب یہ ہے کہ کوئی حدیث سند کے اعتبار سے تو صحیح ہو، مگر اس کے راوی نے اس کے بعض الفاظ بدل دیے ہوں اور یہ الفاظ اصل الفاظ یا اس کے شیخ کے بیان کردہ الفاظ کے ہم معنی اور مترادف ہوں ۔ معلوم ہوا کہ کسی جھوٹی، بے اصل اور من گھڑت روایت کو ’’روایت بالمعنی‘‘ کہہ کر بیان کرنا لوگوں کو فریب دینا اور گمراہ کرنا ہے۔ ۳۔ ((من اراد أن یجلس مع اللہ، فلیجلس مع أہل التصوف)) ’’جو اللہ کے ساتھ بیٹھنا چاہے، وہ اہل تصوف کی ہم نشینی اختیار کرے۔‘‘ حاجی امداد اللہ نے بے اصل روایت: الشیخ فی قومہ کالنبی فی امتہ نقل کرنے کے بعد مذکورہ عبارت بھی بطور حدیث نقل کی ہے اور فرمایا ہے کہ ’’صوفیہ نے اسے حدیث کہا ہے، دراصل یہ سب احادیث ہیں اور دوسری حدیث میں بجائے ’’اہل التصوف‘‘ اہل الذکر صراحۃً موجود ہے اور اہل الذکر اہل التصوف ہیں ، پس حدیث نقل بالمعنی ہو گی۔ مولانا تھانوی نے اپنے پیر کے اس باطل دعویٰ پر جو تبصرہ کیا ہے وہ انہی کے الفاظ میں یہ ہے: ’’دوسری حدیث میری نظر سے نہیں گزری، نہ اہل التصوف کے لفظ سے، نہ اہل الذکر کے لفظ سے، مولانا رومی اس کومثنوی میں لائے ہیں ، مگر معناً یہ بھی ثابت ہے، اس طرح سے کہ حدیث ہے: ’’أنا جلیس من ذکرنی‘‘ میں اس کا ہم نشین ہوں جو مجھے یاد کرے۔[1] باطل کی ہمنوائی باطل ہے: مولانا تھانوی نے اپنے پیر کی ذکر کردہ باطل روایتوں کے بارے میں اپنی ’’لاعلمی‘‘ کا اظہار کر کے جو مستحسن نقطۂ نظر اپنایا تھا اس پر، یہ فرما کر پانی پھیر دیا کہ ’’مگر یہ معناً ثابت ہے۔‘‘ پھر اس کی دلیل میں ایک ناقابل اعتبار روایت کی مثال دے کر اپنا اعتبار بھی کھو دیا۔ انہوں نے جو یہ فرمایا ہے کہ ((أنا جلیس من ذکرنی)) حدیث ہے۔ تو عرض کہ یہ عبارت حدیث نہیں ہے، اس لیے اس کا ذکر امام شیرویہ بن شہرداد دیلمی نے اپنی کتاب ’’مسند الفردوس‘‘ میں کیا ہے اور
[1] ص: ۵۶