کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 54
تھا اور اس صفت میں ان کے درمیان کوئی فرق نہیں تھا، ’’لانفرق بین اَحد من رسلہ‘‘ اسی طرح عدالت کے اعتبار سے صحابہ کرام میں بھی کوئی تفریق درست نہیں ۔ اصلاحی کا مبلغ علم: اصلاحی صاحب نے ’’مبادیٰ تدبر حدیث‘‘ لکھ کر نہ اپنے حق میں اچھا کیا ہے اور نہ اپنے ان شاگردوں کے حق میں جو ان کو اپنی لا علمی کی وجہ سے امام تفسیر کے ساتھ محدث بھی سمجھنے لگے تھے، اگر انہوں نے مبادیٰ تدبر حدیث‘‘ کے بجائے اپنی کتاب کا عنوان، ’’الکفایہ کا تعارف‘‘ رکھا ہوتا تو اس سے وہ منفی اثرات مترتب نہ ہوتے جو ’’مبادیٰ تدبر حدیث‘‘ سے مترتب ہوئے۔ اصلاحی صاحب علم حدیث کی ’’ابجد‘‘ سے بھی واقف نہیں تھے، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ حدیث کو سمجھتے بھی نہیں تھے، جس کی مثالیں گزر چکی ہیں اور ان شاء اللہ آئندہ بھی آئیں گی، انہوں نے ستم یہ کیا ہے کہ حافظ خطیب بغدادی کی کتاب الکفایہ کو ’’علم الروایہ‘‘ میں حرف آخر قرار دے ڈالا، بلکہ وحی الٰہی کا درجہ دے دیا، پھر اس کے مندرجات سے اپنے غلط اور فاسد افکار ونظریات پر آنکھیں بند کر کے استدلال کرنے لگے اور اس کتاب میں جو ضعیف اور موضوع روایتیں منقول ہیں یا علماء کے جو اقوال منقول ہیں ان کو بھی جوں کا توں نقل کرتے چلے گئے ہیں جس کا سبب یہ تھا کہ اولا تو ان کے اندر صحیح اور ضعیف روایتوں میں تمیز کرنے کی صلاحیت نہیں تھی، ثانیا اس کتاب کے بعض مباحث میں انہوں نے اپنے بیمار ذہن کا علاج پا لیا تھا اس طرح حق سے دور ہوتے چلے گئے، اور اس خود فریبی میں بھی مبتلا رہے کہ وہ حدیث کی خدمت کر رہے ہیں ۔ انہوں نے ’’صحابہ کی تعدیل حدیث میں ‘‘ کے باب کے تحت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی جو حدیث نقل کی ہے اسی طرح باب القول فی معنی وصف الصحابی… کے تحت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور سعید بن مسیب رحمہ اللہ کے جو اقوال نقل کیے ہیں وہ سب جھوٹ اور نا قابل اعتبار ہیں ، لہٰذا ان روایتوں سے انہوں نے جو نتائج اخذ کیے ہیں وہ بھی باطل قرار پائے، عجیب بات یہ ہے کہ بغدادی نے اپنی کتاب کے ’’باب ما جاء فی تعدیل اللّٰہ ورسولہ للصحابہ‘‘ کے تحت جو صحیح احادیث نقل کی ہیں ، اصلاحی نے ان میں سے کسی سے بھی تعرض نہیں کیا ہے، فاعتبروا یا اُولی الاَبصار۔ عدالت صحابہ کی طرح عدالت تابعی محض تابعیت سے ثابت نہیں ہوتی، بلکہ تابعی کا تابعی ہونا بھی اس وقت ثابت ہوتا ہے جب وہ صحابہ کا نیکو کاری اور حسن عمل میں تابع اور پیرو رہا ہو، لہٰذا جن لوگوں نے دین میں نئی راہیں نکالیں ، اور عقائد واعمال میں صحابہ کے نقش قدم پر نہیں چلے وہ حقیقی معنوں میں تابعی نہیں تھے، بلکہ صرف تابعین کے معاصر یا ہم عصر تھے، اسی وجہ سے روایت حدیث میں کسی تابعی کے ثقہ اور معتبر ہونے کے لیے عدالت اور ضبط سے اس کے موصوف