کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 539
ہے: روی عبداللہ بن عمر بن غانم قاضی افریقیا، عن مالک، عن نافع، عن ابن عمر، ان النبی صلي اللّٰه عليه وسلم قال… ابن حبان نے اس عبداللہ بن عمر بن غانم کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ امام مالک کی نسبت سے ایسی حدیثیں روایت کرتا تھا جو انہوں نے کبھی بیان ہی نہیں کی ہیں ، اس کی روایت کردہ حدیثوں کا ذکر اور کتابوں میں اس سے حدیث کی روایت صرف ’’اعتبار‘‘ کی غرض سے جائز ہے۔[1] امام عبدالرحمن بن ابی حاتم الجرح و التعدیل میں اس عبداللہ کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں : میں نے اپنے والد -امام ابو حاتم محمد بن ادریس- سے اس کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے فرمایا: مجہول اور غیر معروف ہے۔[2] امام ذہبی نے میزان الاعتدال میں لکھا ہے کہ اس باطل روایت کی مصیبت شاید عبداللہ بن غانم کا شاگرد عثمان بن حشیش قیروانی ہو۔[3] حافظ سخاوی المقاصد الحسنۃ میں تحریر فرماتے ہیں : شاید اس موضوع روایت کی مصیبت افریقی کے علاوہ کوئی اور ہو، اور اس کے موضوع ہونے پر ہمارے شیخ -ابن حجر- اور ان سے پہلے ابن تیمیہ یقینی حکم لگا چکے ہیں ۔ بعض لوگوں نے یہ روایت ان الفاظ میں بھی نقل کی ہے: ((الشیخ فی جماعتہ کالنبی فی قومہ یتعلمون من علمہ و یتأدبون من أدبہ)) شیخ اپنی جماعت میں وہی درجہ رکھتا ہے جو درجہ نبی اپنی قوم میں رکھتا ہے، لوگ اس کے علم سے تحصیل علم کرتے ہیں اور اس کے ادب سے ادب سیکھتے ہیں ۔‘‘ ان تمام الفاظ میں یہ روایت باطل ہے۔[4] ۲۔ ((بجلوا المشایخ فإن تبجیل المشایخ من تبجیل اللہ۔)) ’’مشائخ کی تعظیم کرو، کیونکہ مشائخ کی تعظیم اللہ کی تعظیم ہے۔‘‘ یہ بھی حدیث نہیں جھوٹ ہے اس کی روایت صخر بن محمد حاجبی نے لیث بن سعد سے کی ہے، امام ابن حبان کا قول ہے کہ صخر لیث کے حوالہ سے جھوٹی حدیثیں روایت کیا کرتا تھا۔ اس سے حدیث کی روایت جائز نہیں ہے۔[5] امام عبداللہ بن عدی نے الکامل میں لکھا ہے کہ صخر بن محمد حاجبی وضع حدیث کا مجرم تھا۔ انہوں نے اس کی روایت کردہ جن موضوع حدیثوں کی مثالیں دی ہیں ان میں سے ایک یہ جھوٹی روایت ہے۔[6]
[1] المجروحین: ص۵۳۳، ج ۱ ، ترجمہ: ۵۶۶ [2] الجرح والتعدیل ، ص ۱۳۳،ج ۵، ترجمہ: ۷۸۳۷ [3] میزان الاعتدال ، ص ۱۵۱، ج ۴۔ [4] المقاصد الحسنۃ ، ص: ۳۰۵-۳۰۶ نمبر ۶۰۹ [5] المجروحین: ص ۴۸۳،ج ۱، ترجمہ: ۵۰۴ [6] الکامل ، ص ۱۴۵،ج ۵ ۔ترجمہ: ۳۳، ۹۴۰