کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 538
’’کہہ دو، اللہ کے سوا، آسمانوں اور زمین میں کوئی غیب نہیں جانتا اور لوگوں کو تو یہ شعور ہی نہیں ہے کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے۔‘‘ رہے مشائخ صوفیا کی غیب دانی کے وہ واقعات جو حکایات الاولیاء، کرامات الاولیاء اور فضائل اعمال کی کتابوں میں مذکور ہیں ، یا ابو الحسن شاذلی جیسے صوفیا نے اپنی غیب دانی کے جو دعوے کیے ہیں وہ سب جھوٹ ہیں اور ان کی تصدیق منافی ایمان ہے اس لیے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے جس میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور یہ نہ اختلافی مسئلہ ہے اور ناقابل تاویل کہ اس میں دو رائیں ہوں اور دونوں صحیح ہوں ۔ تصور شیخ، شیخ کا مقام و مرتبہ: تصور شیخ کے بارے میں اسلامی نقطۂ نظر بیان کرنے سے قبل اس کے بارے میں صوفیا کا عقیدہ بیان کر دینا ضروری ہے۔ پاسبان حدیث نبوی کے نزدیک ’’شیخ‘‘ عدالتِ راوی کا سب سے کم تر اور پست درجہ ہے، جبکہ صوفیا کے نزدیک ’’شیخ‘‘ نبی کا ہم پلہ اور ہم رتبہ ہے، اسلامی نقطۂ نظر سے کسی غیر نبی کا کسی نبی سے موازنہ حرام ہے اس کے برابر اور مساوی قرار دینا تو بہت بڑی بات ہے، جبکہ اکابر صوفیا کی مجلسوں میں حدیث کے طور پر جو عبارتیں گردش کرتی ہیں ان میں سے ایک درج ذیل الفاظ میں ملتی ہے: ۱۔ الشیخ فی بیتہ کالنبی فی قومہ۔ ’’شیخ اپنے گھر میں وہی درجہ رکھتا ہے جو درجہ نبی اپنی قوم میں رکھتا ہے۔‘‘ یہ حدیث نہیں جھوٹ ہے، امام عبدالرحمن ابن جوزی نے اپنی کتاب الموضوعات[1]میں اسے انہی الفاظ میں نقل کیا ہے، لیکن امام ابن تیمیہ نے ’’حدیث القصاص‘‘[2]میں اس کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے: الشیخ فی قومہ کالنبی فی امتہ‘‘ شیخ اپنی قوم میں ویسا ہی ہے، جیسا نبی اپنی امت میں ۔‘‘ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا ہے: یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام نہیں ، بلکہ کسی کا قول ہے۔ [3] حاجی امداد اللہ اس جھوٹی روایت کو اپنے مریدوں کے حلقوں میں بیان کر کے ان کو اپنا معتقد بناتے تھے اور مولانا تھانوی نے اپنی کتاب ’’امداد المشتاق‘‘ میں اسے نقل کیا ہے۔[4] یہ جھوٹی اور بے اصل روایت تصور شیخ کی بنیاد ہے۔ امام ابو حاتم محمد بن حبان نے اس کی جو سند بیان کی ہے وہ یہ
[1] نمبر ۳۸۴ [2] نمبر ۲۴ [3] ص ۶۸ [4] ص: ۵۵، حکایت: ۵۴