کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 537
اس پر ان کے مرید مولانا تھانوی کا تبصرہ بھی ملاحظہ فرما لیجیے: اقول: کیونکہ اکثر عوام مومنین دلیل نہ جانتے تھے اور نہ سب اہل مشاہدہ تھے، پھر ایمان تقلیدی نہ ہوا تو کیا ہوا، جب اصول میں تقلید مشروع ہے، فروع میں کیسے انکار کیا جاوے گا۔‘‘ [1] کیا ان فریب کاروں کو علماء میں شمار کرنا درست ہے، قطب الارشاد اور حکیم الامت کہنا تو دور کی بات ہے، حاجی امداد اللہ کی زبان سے ایسی غلط بات تعجب خیز نہیں ، اس لیے کہ وہ ’’عالم‘‘ نہیں تھے، لیکن مولانا تھانوی پر انہوں نے کون سا جادو کر دیا تھا کہ وہ ایک غلط اور خلافِ حق دعویٰ میں ان کی ہمنوائی کر رہے تھے اور اس طرح اپنی علمی اور دینی شہرت پر داغ لگا رہے تھے۔ سورۂ بقرہ کی مذکورہ آیت کریمہ میں ’’غیب‘‘ سے مراد وہ غیبیات ہیں جن کی خبر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دی ہے اور جن پر ایمان آیت نمبر ۲ میں مذکور ’’متقین‘‘ کی صفت ہے اور فرض ہے۔ کیا اللہ و رسول بھی اپنی کسی ’’خبر‘‘ کی صحت و صداقت کی دلیل پیش کرنے کے ’’مکلف‘‘ ہیں ؛ اللہ و رسول تو بجائے خود دلیل ہیں ۔ اللہ و رسول کی دی ہوئی خبروں پر بے چون و چرا ایمان تو مسلمان بننے کی شرطوں میں سے ایک ہے اور اللہ و رسول کی غیر مشروط اطاعت تو فرض ہے، بلکہ یہی حقیقی ایمان و اسلام ہے۔ کیا اللہ کو اپنا معبود برحق اور محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا نبی اور رسول ماننے والے کسی انسان کے دل میں اللہ و رسول اور ائمہ مجتہدین اور فقہاء کے درمیان موازنہ کرنے کا خیال تک پیدا ہو سکتا ہے؟ اوپر شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کا جو قول نقل کیا گیا ہے اس میں ’’غیر معصوم‘‘ کی تعبیر اسی وجہ سے تو استعمال کی گئی ہے کہ ’’معصوم‘‘ اور رسول کی تقلید محل بحث ہے ہی نہیں ، اس کو تو اللہ تعالیٰ نے مطلق مطاع، مطلق متبوع اور مطلق مقتدی بنایا ہے، کیا ان میں سے کوئی بھی حیثیت کسی غیر معصوم یا غیر نبی کو بھی حاصل ہے؟ اگر اس سوال کا جواب کوئی ’’اثبات‘‘ میں دیتا ہے تو وہ مسلمان نہیں ہے اور اسلام سے اس کا ادنی سا بھی تعلق نہیں ہے۔ مولانا تھانوی نے غیب کی دلیل جاننے کی نفی صرف ’’اکثر عوام مومنین‘‘ سے کی ہے، جس کا مطلب ہے کہ ان کے نزدیک کچھ عوام اور سارے خواص غیب کے دلائل جانتے ہیں اور غیب کی جن باتوں پر ایمان رکھتے ہیں وہ ان کے مشاہدے میں آ چکی ہیں تو یہ قرآن کی تکذیب ہے، کیونکہ قرآن کے مطابق ’’غیب‘‘ اس کو کہتے ہیں جس کو کسی بھی ذریعۂ علم سے معلوم نہ کیا جا سکے؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں غیب کی جو خبریں دی ہیں وہ ’’علام الغیوب‘‘ کے بتانے سے دی ہیں : ﴿قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللّٰہُ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُبَعَثُوْنَo﴾ (النمل: ۶۵)
[1] ص: ۸۲، حکایت: ۱۵۴