کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 536
تقلید پر قرآن سے غلط استدلال: شاہ ولی اللہ حنفی رحمہ اللہ نے حجۃ اللہ البالغہ میں غیر معصوم کی تقلید کو دین میں تحریف کے اسباب میں سے ایک سبب قرار دیا ہے، تحریر فرماتے ہیں : ’’دین میں تحریف کے اسباب میں سے ایک یہ ہے کہ غیر معصوم کی تقلید کی جائے، غیر معصوم سے میری مراد: نبی کے سوا ہر شخص ہے، جس کی عصمت ثابت ہے، اس تقلید کی حقیقت یہ ہے کہ امت کے علماء میں سے کسی نے کسی مسئلہ میں اجتہاد کیا اور اس کے پیرؤوں نے یہ سمجھ لیا کہ اس کا اجتہاد قطعی طور پر صحیح ہے یا اس کی صحت کا غالب گمان ہے، اسی طرح اس اجتہاد کے مقابلے میں کسی صحیح حدیث کو ردّ کر دیں ، تو یہ وہ تقلید نہیں ہے جس کے جواز پر ’’امت مرحومہ‘‘ کا اتفاق ہے، بلکہ امت نے مجتہدین کی جس تقلید کے جواز پر اتفاق کیا ہے وہ ایسی تقلید ہے جو اس علم کے ساتھ کی جائے کہ مجتہد غلطی بھی کرتا ہے اور کر سکتا ہے اور اس کا اجتہاد درست بھی ہو سکتا ہے اور اس اعتقاد کے ساتھ مقلد کی نگاہیں ، مجتہد فیہ مسئلہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے انتظار میں اس عزم کے ساتھ اٹھی رہیں کہ اگر کوئی صحیح حدیث اس کی تقلید کے خلاف ظاہر ہو گئی تو وہ تقلید کو ترک کر کے حدیث کی پیروی کرے گا، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے ارشاد: ﴿اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَہُمْ وَ رُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ﴾ (التوبۃ: ۳۱) ’’انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا رب بنا لیا ہے۔‘‘ کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا ہے: ((انہم لم یکونوا یعبدونہم، و لکنہم کانوا إذا احلوا لہم شیئا استحلوہ و إذا حرموا علیہم شیئا حرموہ)) [1] ’’درحقیقت یہ لوگ ان کی عبادت نہیں کرتے تھے، بلکہ جب وہ کسی چیز کو حلال قرار دے دیتے تھے تو یہ اس کو حلال مان لیتے تھے اور جب وہ کسی چیز کو حرام قرار دے دیتے تھے تو اسے وہ اپنے اوپر حرام کر لیتے تھے۔‘‘ شاہ ولی اللہ کا یہ قول تقلید کے جواز سے متعلق ہے، جبکہ امداد اللہ کی جو تقلید اس وقت زیر بحث ہے وہ ان کے اور تمام متأخرین احناف کے نزدیک فرض ہے اور عملاً کتاب و سنت پر مقدم ہے۔ حاجی صاحب فرماتے ہیں : ’’غیر مقلدین انکار تقلید کرتے ہیں ، ’’یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ‘‘ میں صاف اشارہ، بلکہ تصریح تقلید موجود ہے۔‘‘
[1] ترمذی: ۳۰۹۵۔ طبرانی: ۲۱۸، ۲۱۹، و ابن حزم فی الإحکام: ۶/۱۳۲-۱۳۳، ۱/۳۵۲