کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 535
الفاظ و معانی کا باہمی تعلق: جس طرح ہر لفظ کا وہی معنی و مفہوم درست اور مقبول ہے جس معنی اور مفہوم میں اہل زبان نے اس لفظ کو استعمال کیا ہے اور ماہرین زبان کی کتابوں میں عربی زبان کے مستعمل الفاظ اپنے تمام معانی اور اپنے طریقہ استعمال کے ساتھ مدون ہیں ۔ یاد رہے کہ عربی زبان دنیا کی ایسی واحد زبان ہے جس کا کوئی لفظ ’’متروک‘‘ نہیں ہوا ہے۔ معانی کے تعین میں قواعد زبان کا بھی زبردست کردار ہے اور اس کی رعایت کرنے والا کسی عبارت کی تاویل و تشریح میں غلطی سے محفوظ رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۂ تغابن کی زیر بحث آیت میں انسانوں کو دو گروہوں میں تقسیم کر دیا ہے؛ کافر و مومن، اور یہ اسلوب بیان: فَمِنْکُمْ کَافِرٌ وَّ مِنْکُمْ مُوْمِن تم میں سے کوئی کافر ہے اور کوئی مومن- اور کافر و مومن کے درمیان یہ واضح تفریق اس امر پر بصراحت دلالت کرتی ہے کہ نہ سب انسان کافر ہیں اور نہ سب مومن، بلکہ ان میں کچھ کافر ہیں اور کچھ مومن، اور آیت میں کافر کو پہلے اس لیے لایا گیا ہے کہ اہل ایمان کے مقابلے میں اہل کفر ہمیشہ زیادہ رہے ہیں ۔ اسی طرح فَمِنْکُمْ کَافِرٌ وَّ مِنْکُمْ مُوْمِن کی تعبیر اس امر میں قاطع ہے کہ کوئی بھی بیک وقت کافر و مومن نہیں ہو سکتا، کیونکہ ایمان و کفر میں تضاد ہے اور ایک ہی انسان کا بیک وقت ایمان و کفر سے موصوف ہونا محال ہے۔ امداد اللہ نے جو یہ دعویٰ کیا ہے کہ علمائے باطن کہتے ہیں کہ ہر کوئی مومن و کافر ہے، کیونکہ سب میں قوی محمودہ و مذمومہ ہوتے ہیں ‘‘ تو یہ دعویٰ باطل ہے اور قرآن کے اسلوب بیان سے یہ معنی نہیں نکلتے؛ قوی ’’قوۃ‘‘ کی جمع ہے جس کے معنی ہیں فطری اور پیدائشی امکان اور قدرت، کہتے ہیں : فلاں کے اندر بالقوۃ ایسا کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ یہ قدرت و صلاحیت اچھی بھی ہوتی ہے اور بری بھی، لیکن جب تک یہ قدرت و توانائی فعل کی شکل نہ اختیار کر لے اس کا کوئی اعتبار نہیں قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے ایمان و کفر کو انسانوں کا اختیار فعل قرار دیا ہے اور جزا و سزا کو ایمان و عمل صالح، اور کفر و معصیت کا نتیجہ قرار دیا ہے، محض فطری استعداد اور امکان و قدرت کی بنیاد پر کسی کو مومن و کافر نہیں کہا جا سکتا امداد اللہ کی یہ تاویل باطنی تاویل اور وحدۃ الوجودی تاویل ہے، جس کی رو سے مشرکین مکہ مومن بھی تھے اور صحابہ کافر بھی۔ عجیب بات ہے کہ مولانا تھانوی نے اپنی تفسیر میں اپنے پیر کے مطابق آیت کا ترجمہ نہیں کیا ہے، بلکہ قواعد زبان کے مطابق کیا ہے۔ ’’امداد المشتاق‘‘ میں ان کو اپنے پیر کے اس ’’الحادی‘‘ قول کی پر زور تردید کرنی چاہیے تھی اور اگر ان کے اندر اتنی دینی جرأت نہیں تھی تو کم از کم اس کو اس میں نقل نہ کرتے۔