کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 534
یہاں بھی عبادی کی مناسبت سے حاجی امداد اللہ کے بقول اتَّقُوْا رَبَّکُمْ کے بجائے اِتَّقُوْنِیْ ہونا چاہیے تھا۔ یاد رہے کہ یہاں ’’عباد‘‘ کی مضاف الیہ یائے متکلم ’’نداء‘‘ کی وجہ سے محذوف ہے، جبکہ آیت نمبر ۵۳ میں مذکور ہے حالت نداء میں دونوں صورتیں جائز ہیں ۔ امداد اللہ کی تحریف قرآنی کی دوسری مثال: سورۂ تغابن میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ فَمِنْکُمْ کَافِرٌ وَّمِنْکُمْ مُؤْمِنٌ وَّاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌo﴾ (التغابن: ۲) ’’وہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا ہے، پھر تم میں سے کوئی کافر ہے اور کوئی مومن اور تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اسے خوب اچھی طرح دیکھ رہا ہے۔‘‘ حاجی امداد اللہ نے اس آیت مبارکہ کا مطلب بیان کرتے ہوئے اس کی جو معنوی تحریف کی ہے، وہ ملاحظہ ہو، فرماتے ہیں : ’’اس کی تفسیر نزدیک علماء ظاہر مشہور ہے اور علماء باطن کہتے ہیں کہ ہر کوئی مومن و کافر ہے، کیونکہ سب میں قوی محمودہ و مذمومہ ہوتے ہیں ۔‘‘[1] حاجی امداد اللہ اعلان باطل میں بڑے جری تھے، اسلام میں ظاہر و باطن نہیں ہے اسلام سے نسبت کا دعویٰ کرنے والے فرقوں میں سب سے پہلے شیعہ نے، بلکہ اسماعیل بن جعفر صادق کے پیرؤوں نے یہ دعویٰ کیا کہ ’’شرعی نصوص‘‘ اشاروں اور رموز سے عبارت ہیں ، جن کی ایسی تاویلیں ہیں جو ان کے ان معانی اور مفاہیم سے مختلف یا ان کے خلاف ہیں جو جمہور علمائے اسلام جانتے ہیں اور شرعی نصوص کی ان باطنی تاویلوں سے صرف اسماعیلیہ فرقہ کے لوگ واقف ہیں ۔ یوں تو صوفیا اپنے آپ کو اہل سنت و جماعت میں شمار کرتے ہیں اور شیعہ فرقہ سے اپنی براء ت اور بیزاری کا اعلان بھی کرتے رہتے ہیں ، شاہ عبدالعزیز نے تو ان کے خلاف کتابیں بھی لکھی ہیں ، بایں ہمہ صوفیا اپنے بہت سے عقائد و نظریات میں شیعہ کے ہم مسلک ہیں ، خاص طور پر قرآن کی باطنی تفسیر میں ، اور ان میں ایسے لوگ شاذ و نادر ہی گزرے ہیں جنہوں نے اہل باطن کی ہمنوائی نہ کی ہو۔ برصغیر کے اکابر صوفیا میں امداد اللہ کو یہ انفرادیت حاصل ہے کہ وہ اہل الظاہر کہہ کر جمہور مفسرین اور محدثین کے خلاف زبان تنقید دراز کرتے ہیں اور اہل الباطن سے اپنی نسبت و تعلق کا برملا اظہار و اعلان کرتے ہیں ۔ حاجی امداد اللہ تفسیر، حدیث اور علم عقائد سے نابلد ہونے کے ساتھ عربی زبان کے اصول و قواعد سے بھی بالکل ناواقف تھے، دراصل ان کا سارا مطالعہ مثنوی رومی تک محدود تھا، وہی ان کا قرآن تھی، وہی ان کا عقیدہ تھی اور وہی ان کا ماخذ شریعت تھی۔
[1] ص: ۹۸