کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 533
اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت ، خاص توجہ ، خاص تعلق اور خاص مہربانی مضمر ہے، لیکن رحمت کی اضافت اس اسم ذات اللہ کی طرف اس وجہ سے کی کہ یہ اس کی تمام صفاتِ کمال کا جامع ہے اور اللہ کی صفت ’’ رحمت‘‘ اس کے فضل و کرم، اس کی قوت و عظمت، اس کے انعام و اکرام اور اس کی توفیق اور اسباب خیر و بھلائی کی فراہمی پر دلالت کرتی ہے، متکلمین کی یہ بہت بڑی بدنصیبی اور محرومی ہے کہ انہوں نے رحمت کو ضعف و کمزوری سمجھ کر اللہ تعالیٰ کی اس عظیم صفت کا انکار کر دیا، جبکہ کائنات کا ذرہ ذرہ اللہ تعالیٰ کی صفت رحمت کی گواہی دے رہا ہے، قرآن صرف اللہ تعالیٰ کے معبود ہونے کی دلیل کے طور پر جہاں اس کی ربوبیت شاملہ کا ذکر کرتا ہے وہیں اس کے صفاتی ناموں ، رحمن و رحیم کا بھی بکثرت ذکر کرتا ہے: ﴿وَ اِلٰہُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ﴾ (البقرۃ: ۱۶۳) ’’اور تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں بے حد رحم کرنے والا، نہایت مہربان۔‘‘ صرف اللہ تعالیٰ کے معبود ہونے کے سیاق میں اس کے ان دونوں عظیم ناموں کے ذکر سے یہ تاکید مقصود ہے کہ اس کی الوہیت اس کی رحمت پر مبنی ہے، جس طرح سورۂ فاتحہ میں الحمد للہ رب العالمین کے بعد ’’الرحمن الرحیم‘‘ فرما کر یہ تاکید کی گئی ہے کہ اس کی ربوبیت اس کی رحمت پر مبنی ہے، یاد رہے کہ قرآن میں رحمن ۵۷ بار اور رحیم ۹۵ بار آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اسم ’’رحمن‘‘ میں اس کی عمومی رحمت بیان ہوئی ہے جو ساری مخلوق کے لیے عام ہے اور ’’رحیم‘‘ اس خصوصی رحمت کو شامل ہے جس میں دوام ہے اور جو مومنین کے لیے خاص ہے۔ سورۂ زمر میں لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ اپنے سیاق میں لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَتِیْ سے زیادہ بلیغ ہے اور اس تعبیر نے ’’توحید آشنا‘‘ اور توحید کی لذت سے محروم لوگوں کے اس دعوے کے تار و پود بکھیر دیے ہیں کہ ’’یا عبادی‘‘ میں ضمیر متکلم کا مرجع اللہ تعالیٰ نہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، اگر لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَتِیْ ہوتا تو ان زبانوں کو مزید ہرزہ سرائی کا موقع مل جاتا جن سے شیطان بولتا ہے۔ میری ان باتوں کی تائید صحیح بخاری کی ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے جس کے الفاظ ہیں : ((لا ینبغی، لعبد أن یقول: انا خیر من یونس بن متی)) [1] تو ضمیر ’’انا‘‘ کا مرجع نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ’’عبد‘‘ نہیں ہے جو مذکور ہے، اس لیے کہ سیاق اسی پر دلالت کرتا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی بندہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ یونس بن متی سے بہتر ہے۔ اس زیر بحث آیت کے اسلوب بیان کو سمجھنے کے لیے اسی سورت کی آیت نمبر ۱۰ پر بھی ایک نظر ڈال لیجیے جس کے الفاظ ہیں : ﴿قُلْ یَاعِبَادِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوْا رَبَّکُمْ﴾ (الزمر: ۱۰) ’’کہو، اے میرے بندو جو ایمان لائے ہو اپنے رب کی ناراضی سے بچو۔‘‘
[1] نمبر ۳۳۹۵