کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 532
مولانا تھانوی کا اپنے علمی مقام و مرتبے، اپنی ذمہ داریوں اور اپنی شہرت کے لحاظ سے یہ فرض تھا اور ان پر اللہ تعالیٰ کا یہ حق تھا اور قرآن کے کتاب ہدایت ہونے پر ان کے ایمان کا ان سے یہ تقاضا تھا کہ وہ نہایت واضح اور صریح لفظوں میں یہ اعلان کر دیتے کہ حاجی امداد اللہ کا قول باطل اور مشرکانہ ہونے کے ساتھ ساتھ قرآن پاک کی تکذیب ہے، کیونکہ قرآن اول سے آخر تک تمام انسانوں ، جنوں اور فرشتوں کو صرف اللہ تعالیٰ کا بندہ قرار دیتا ہے۔ رہی قرینہ کی بات تو قرینہ بذات خود دلیل نہیں ہے، بلکہ متکلم کی مراد کو متعین کرنے کا ایسا ذریعہ ہے جو صحیح بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی، اور اگر کسی سابقہ باطل اور گمراہ کن نظریہ اور عقیدہ کی روشنی میں قرآن پاک کی کسی تعبیر کی توضیح و تشریح کی جائے تو یہ مردود اور باطل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبلغ عن اللہ تھے، قرآن آپ پر نازل ہوا تھا اور آپ اس کی تلاوت اور تبیین کے مکلف تھے، قرآن پاک میں جہاں جہاں ’’قل‘‘ آیا ہے اس کے ذریعہ آپ کو خطاب کر کے اس کے بعد وہ حکم بیان کیا گیا ہے جس کے مکلف آپ یا دوسرے لوگ تھے، قرآن پاک میں ۳۳۲ مرتبہ بذریعہ ’’قل‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا ہے، بعض مقامات پر ’’قل‘‘ کے بعد وہ احکام بیان کیے گئے ہیں جن کا تعلق براہ راست آپ کی بشریت اور رسالت سے ہے۔ (اسراء: ۵۳۔ کہف: ۱۱۰) سورۂ زمر کی زیر بحث آیت میں ’’ قل ‘‘ کے بعد وہ اصل خطاب ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے ان بندوں سے کیا ہے جو گناہوں کا ارتکاب کر کے اپنے آپ پر زیادتیاں کر بیٹھتے ہیں اور پھر ان کے دلوں میں اللہ کی رحمت سے نااُمیدی پیدا ہو جاتی ہے، صحیحین میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کے مطابق بعض مشرکین اپنے دلوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتِ توحید کو قبول کرنے کی استعداد پاتے تھے، لیکن جاہلی زندگی میں انہوں نے جس کثرت سے لوگوں کو قتل کیا تھا اور جس کثرت سے بدکاریاں کی تھیں ان کی وجہ سے ان کے دلوں میں یہ سوال اُبھرتا رہتا تھا کہ کیا ان گناہوں کا کفارہ ہے؟ اور جب انہوں نے اپنا یہ سوال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا تو یہ آیت نازل ہوئی۔ [1] شانِ نزول کے اعتبار سے اگرچہ یہ آیت ایک خاص موقع پر نازل ہوئی ہے، مگر اپنے الفاظ کے عموم کی روشنی میں اس کا حکم تمام گنہگاروں کے لیے عام ہے ، چاہے وہ کفار ہوں یا معصیت کار مومنین، یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے تمام بندوں کو مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ گناہوں کی مغفرت کرنے والا تنہا وہی ہے، اور وہ گناہوں سے توبہ کرنے والوں کو معاف کر دیتا ہے، اگر کوئی مشرک و کافر ہے تو اس کی توبہ یہ ہے کہ وہ ایمان لے آئے اوراگر گنہگار اہل اہل ایمان ہے تو گناہ یا گناہوں سے توبہ کر لے اور ان سے کنارہ کش ہو جائے، توبہ و انابت ضروری ہے۔[2] اپنے بندوں کو اللہ تعالیٰ نے ’’اے میرے بندو‘‘ فرما کر اس لیے مخاطب کیا ہے کہ اس اندازِ تخاطب میں بندوں پر
[1] بخاری: ۴۸۱۰۔ مسلم: ۱۲۲۔ [2] ابن کثیر، ص ۲۲۵، ج ۳۔