کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 531
’’کہہ دو، اے میرے وہ بندوں جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو۔‘‘ نظریہ وحدۃ الوجود پر مبنی امداد اللہ کا اپنے مشرکانہ قول پر اللہ تعالیٰ کے ارشاد سے یہ استدلال کتاب اللہ کو اپنی خواہشات کے تابع بنانا ہے، تصوف کی زبان میں ’’واصل بحق‘‘ ایسا شخص ہے جو اللہ تعالیٰ سے متحد ہو گیا ہو اور اللہ اور اس کے درمیان ’’غیریت‘‘ باقی نہ رہی ہو، اس طرح وہی معبود بھی ہو اور وہی عبد بھی، وہی آمر بھی اور وہی مامور بھی اور جو اس کا بندہ ہو وہ اس کے بندے کا بندہ بھی ہو؟ حاجی امداد اللہ نے سورۂ زمر کی مذکورہ بالا آیت کی اپنی تفسیر کی تائید میں مولانا تھانوی کے قول کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ ’’مولانا اشرف علی صاحب نے فرمایا: قرینہ بھی انہیں معنی کا ہے، آگے فرماتا ہے: لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ اگر مرجع اس کا اللہ ہوتا، فرماتا ’’من رحمتی‘‘ تاکہ مناسبت ’’عبادی‘‘ کی ہوتی۔‘‘ مولانا تھانوی نے اس پر جو حاشیہ چڑھایا ہے اس میں فرماتے ہیں : قولہ: ’’مرجع ضمیر متکلم نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔‘‘ اقول: یعنی اور بزرگوں کے کلام میں بھی یہ مضمون موجود ہے، یہ مرتبہ حقیقت میں ہے، جیسا کہ اس کا معنی ’’واصل بحق‘‘ ہونا اوپر فرمایا ہے جس کو عارفین ہی سمجھ سکتے ہیں اور باعتبار ظاہر کے چونکہ عبد بمعنی عابد آتا ہے اس لیے احتیاط کی جاتی ہے، البتہ عبد بمعنی مملوک لے کر توجیہ ممکن ہے، مگر عوام کو ابہام سے بچانا بھی واجب ہے، قولہ: مولانا اشرف علی صاحب نے فرمایا: ’’اقول: منشا اس تقریر کا ’’فناء فی الشیخ‘‘ ہے اس لیے حجت نہیں ۔‘‘[1] توضیح اور تبصرہ: مولانا تھانوی نے امداد اللہ کی مشرکانہ تفسیر، بلکہ تحریف کی نہ کھل کر تائید کی ہے اور نہ بصراحت تردید، لیکن ’’اور بزرگوں کے کلام میں بھی یہ مضمون آیا ہے‘‘ فرما کر اشارۃً اس کی تائید کی ہے اور ’’یہ مرتبہ حقیقت میں ہے‘‘ فرما کر یہ کہنا چاہا ہے کہ چونکہ نظریہ ’’وحدۃ الوجود‘‘ کی رو سے حقیقت میں ہر موجود عین اللہ تعالیٰ ہی ہے، اس لیے رسول اللہ ہے اور اللہ رسول ہے، لیکن یہ فرما کر کہ اس کو عارفین ہی سمجھ سکتے ہیں ‘‘ اس کے بیان اور اظہار کو ناپسند کیا ہے۔ حاجی امداد اللہ نے آیت میں ’’عبادی‘‘ کی مضاف الیہ ضمیر متکلم کا مرجع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرار دینے کے مسئلہ میں مولانا تھانوی کے جس قول کا حوالہ دیا ہے اس کو ’’فناء فی الشیخ‘‘ کہہ کر حجت ماننے سے انکار کر دیا ہے جس کا سبب یہ ہو سکتا ہے کہ انہوں نے اپنی تفسیر میں ’’عبادی‘‘ کی ضمیر متکلم کا مرجع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں مانا ہے، اسی وجہ سے تفسیری اور وضاحتی ترجمہ بایں الفاظ کیا ہے: ’’آپ ان سوال کرنے والوں کے جواب میں میری طرف سے کہہ دیجیے کہ اے میرے بندو، جنہوں نے کفر و شرک کر کے اپنے اوپر زیادتیاں کی ہیں ۔‘‘ [2]
[1] ص: ۹۲ [2] ص: ۹۰۳