کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 530
سفر پر لے جانے سے پہلے سیّد البشر صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک سینے کو سیّد الملائکہ جبریل علیہ السلام نے کھولا، قلب مبارک کو آبِ زمزم سے دھویا اور اس کو ایمان و حکمت سے بھرا۔[1] اور معراج کے سفر میں ہر آسمان کا دروازہ کھولنے سے پہلے اس کے خازن فرشتے نے جبریل علیہ السلام سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پوچھا اور یہ بھی دریافت کیا کہ کیا آپ کو طلب کیا گیا ہے؟ لیکن امداد اللہ صوفی کے امام اور صوفیوں کے پیران پیر مولانا روم کو زبان سے یہ کلمہ ادا کرتے ہی: ’’انسان کو چاہیے کہ زمین سے آسمان پر جست لگائے‘‘ دو فرشتے چوتھے آسمان پر لے گئے اور وہاں کے عجائب و غرائب کا مشاہدہ کرا دیا، کیونکہ وہ مادر زاد ولی تھے اور ولی نبی سے افضل ہوتا ہے، اس لیے کہ ولی کا تعلق صرف خالق سے ہوتا ہے، جبکہ نبی خالق اور خلق دونوں سے تعلق رکھتا ہے۔ یاد رہے کہ معجزات انبیاء اور رسولوں کے لیے خاص ہیں قرآن میں معجزہ کی تعبیر نہیں آئی ہے، اس کے بجائے آیہ، آیات اور سلطان کی تعبیریں آئی ہیں ، اور کوئی بڑے سے بڑا صوفی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی صحابی کے برابر بھی نہیں ہو سکتا تو پھر مولانا روم سے اتنے بڑے معجزے کی نسبت کس طرح صحیح ہو سکتی ہے؟ اور وہ اتنے بڑے معجزے کے متحمل کیسے ہوئے؟ امداد اللہ کی تحریفات قرآنی: حاجی امداد اللہ کسی دینی موضوع کے بارے میں لب کشائی کے اہل نہیں تھے، پھر بھی انہوں نے بہت سے دینی موضوعات میں رائے زنی کی ہے، جن میں سے ایک بعض قرآنی آیات کی تفسیر و تبیین بھی ہے، جو دراصل ان کی بے علمی، بدعقیدگی اور مسائل تصوف میں ان کے غیر معمولی غلو، اور وحدۃ الوجود اور ’’باطنیت‘‘ پر ان کے ایمان کی وجہ سے تفسیر نہیں ، قرآن کی معنوی تحریف ہے اور طرفہ تماشا یہ ہے کہ وہ قرآنی آیات کی معنوی تحریف کرتے ہوئے جمہور مفسرین پر، ان کو اہل الظاہر کہہ کر چوٹ کرنے سے گریز بھی نہیں کرتے، اور ان کے مرید ’’حکیم الامت‘‘ صاحب تفسیر ہوتے ہوئے اسلام کے عقیدہ توحید سے متصادم ان کی باطل تفسیر کی تائید کر کے ان کے کار معصیت میں اشتراک سے احتراز نہیں کرتے، اس لیے کہ تصوف میں پیر کی مخالفت حرام اور اس کی اطاعت و ہمنوائی فرض ہے۔ تھانوی کی کتاب ’’امداد المشتاق اِلی اشرف الاخلاق‘‘ میں ان کا ایک مشرکانہ قول بایں الفاظ نقل کر کے اس کی تائید کی گئی ہے: ’’چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ’’واصل بحق‘‘ ہیں ’’عباد اللہ کو عباد رسول‘‘ کہہ سکتے ہیں ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿قُلْ یٰعِبٰدِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ﴾ (الزمر: ۵۳)
[1] بخاری: ۳۴۹، ۱۶۳۶، ۳۳۴۲۔ مسلم: ۱۶۳