کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 53
نازل کیا گیا ہے وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔‘‘ اس وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے حدیث سننے والا کہتا ہے: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: اسی طرح اس صحابی سے وہ حدیث سننے والا صحابی یا تابعی بھی کہتا ہے: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جبکہ پہلے صحابی نے وہ حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بیان کرتے ہوئے براہ راست سنی ہے اور دوسرے صحابی یا تابعی نے وہ حدیث بالواسطہ سنی ہے۔ صحابہ کرام کے درمیان شدید سیاسی اختلاف بھی ہوئے، ان کے مابین جنگیں بھی ہوئیں اور بعض صحابہ گناہ کبیرہ کے مرتکب بھی ہوئے جن سے وہ تائب ہو گئے ، لیکن روایت حدیث میں کذب بیانی سے ان کا دامن پاک تھا، حتیٰ کہ اپنے شدید مخالفین کے بارے میں بھی کسی صحابی نے کوئی جھوٹی روایت گھڑ کر روایت نہیں کی۔ یہ صحیح ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات پاک میں بھی منافقین موجود تھے، اور آپ کی وفات کے بعد بھی موجود رہے، مگر روایت حدیث میں کبھی بھی ان کا کوئی حصہ نہیں رہا اس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کی طرح حدیث کی بھی کس طرح حفاظت کی؟ اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے اگر کوئی صحابی کسی صحابی سے کوئی حدیث سنتا تھا تو بلا ادنی تردد اسے قبول کر لیتا تھا، اس کے برعکس حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے اذن باریابی کے متعلق حدیث سننے کے بعد ان سے جو گواہ طلب کیا اور ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے میت کے اہل خانہ کے رونے سے میت کے مبتلائے عذاب ہونے کی حدیث کے بارے میں جس رویہ اور طرز عمل کا اظہار کیا تو یہ دونوں واقعات ان دونوں صحابیوں کے ذاتی نقطہ نظر کے ترجمان تھے اور انہوں نے ان حدیثوں کے راویوں کی تکذیب نہیں کی تھی، میں نے صحیح بخاری کی بعض حدیثوں پر اعتراضات کی حقیقت میں ان دونوں واقعات پر بڑی تفصیل سے تبصرہ کیا ہے اور دلائل وبراہین سے یہ ثابت کیا ہے کہ عمر بن خطاب اور ام المومنین اپنے فضل ومرتبے کی عظمت کے باوجود اپنے طرز عمل میں حق بجانب نہیں تھے۔ دراصل صحابہ کی عدالت محل بحث نہیں تھی اور ہر صحابی کے ’’عدل‘‘ ہونے کا لازمی تقاضا یہ تھا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے کوئی ایسی بات روایت نہ کرے جو اسے یاد نہ رہ گئی ہو اس طرح حدیث کے راوی صحابہ کرام کی عدالت کی طرح ان کا حفظ وضبط بھی محل بحث نہیں رہا۔ عدالت صحابہ کے محل بحث نہ ہونے سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ جس حدیث کے بارے میں یہ یقین کامل ہو کہ اس کی روایت کسی صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کی ہے وہ لازماً حدیث رسول ہے۔ اور اس سے صحابۂ کرام کے اندر علم ومعرفت اور ایثار وقربانی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کسب فیض کے اعتبار سے فرق مراتب کی نفی بھی نہیں ہوتی، کیونکہ دونوں مختلف چیزیں ہیں ۔ دراصل عدالت صحابہ، رسولوں کے منصب رسالت کی طرح ہے اور جس طرح ہر رسول اپنے دعویٔ رسالت میں سچا