کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 529
کسوٹی ہوتی ہی نہیں ، اس پر مستزاد یہ کہ ان کے عقیدۂ ’’پیر پرستی‘‘ نے ان کے پیروں کی اطاعت کو اللہ و رسول کی اطاعت پر مقدم کر رکھا ہے۔ صحابۂ کرام کے عہد میں ، تابعین کے عہد میں ، ائمہ رشد و ہدایت، محدثین، اور ائمہ فقہ کی پاکیزہ سیرتوں میں ان روحانی تجربوں ، کائنات اور اللہ میں اتحاد اور مشاہدۂ حق کا اشارۃً بھی ذکر نہیں ملتا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرائض منصبی میں کتاب و سنت کی تعلیم اور تزکیۂ نفس بھی شامل تھی، مگر آپ نے فنا و بقا، فناء الفنا، جمع و فرق اور وحدۃ الوجود کی کوئی تعلیم نہیں دی، اگر یہ چیزیں حق ہوتیں تو آپ ان کی ضرور تعلیم دیتے۔ صحابہ کرام، تابعین، محدثین اور ائمہ فقہ کی سیرتوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے کسی پر بھی کبھی عالم بے شعوری، غیبت، مدہوشی اور سکر کی کیفیت طاری نہیں ہوئی اور کسی ایک زبان سے بھی کوئی کفریہ اور مشرکانہ لفظ نہیں نکلا اور کسی ایک نے بھی اللہ تعالیٰ کا مشاہدہ کرنے، کائنات کے ذات واحد کے مظاہر ہونے اور اپنی صفات کو اللہ کی صفات سے متحد ہونے کا دعویٰ نہیں کیا ہے، اگر ان کا اسلام سے کوئی معمولی سا بھی تعلق ہوتا تو ان کے یہاں بھی ان کا ذکر ملتا۔ صوفیا کو رسولوں سے تشبیہ دینے کی ایک اور مثال: مولانا تھانوی کے بقول حاجی امداد اللہ نے فرمایا: مولانا روم مادر زاد ولی تھے، ایک بار عالم طفلی میں لڑکوں کے ساتھ کھیلتے تھے لڑکوں نے کہا: آؤ آج اس مکان سے دوسرے مکان پر جست لگائیں آپ نے فرمایا: یہ کھیل تو بندروں ، کتوں اور بلیوں کا ہے انسان کو چاہیے کہ زمین سے آسمان پر جست لگائے، یہ کہہ کر غائب ہوئے لڑکوں میں شور و غل پیدا ہوا اور ان کے والدین کو بھی اضطراب ہوا، تھوڑی دیر بعد آپ ظاہر ہوئے اور بیان کیا کہ: جیسے ہی میں نے وہ کلمہ کہا مجھے دو فرشتے چہارم آسمان پر لے گئے، مجھے وہاں کے عجائب و غرائب دیکھنے سے گریہ طاری ہوا، میری یہ حالت دیکھ کر پھر زمین پر چھوڑ گئے۔‘‘[1] تبصرہ، معراج نبی صلی اللہ علیہ وسلم : کوئی شخص مادر زاد ولی نہیں ہوتا، اس لیے کہ اس کا تعلق انسان کے ایمان اور تقویٰ سے ہے اور ایمان و تقویٰ کا مکلف ایک بالغ انسان ہے، نابالغ بچے نہیں ، پھر اس کی زد براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معراج پر پڑتی ہے جو ایک معجزہ تھی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص تھی، یہ درحقیقت ایک ایسا تاج ہے جس سے انبیاء سمیت تاریخ انسانی کے کسی بھی فرد کا سرمزین نہیں ہوا ہے۔ اسراء کا معجزہ سورۂ اسرا کی پہلی آیت اور معراج کا واقعہ یا معجزہ سورۂ نجم کی ۱۲ آیتوں ۷-۱۸ میں بیان ہوا ہے۔ رہیں احادیث تو ۲۵ صحابیوں سے ایسی حدیثیں مروی ہیں جن میں معجزۂ معراج کی تفصیلات بیان ہوئی ہیں اس معجزہ کی اہمیت اور عظمت اس امر سے واضح ہوتی ہے کہ مکہ مکرمہ کے حرم پاک سے بیت المقدس کے
[1] امداد المشتاق: ص ۱۴۳۔ حکایت نمبر: ۳۵۴۔