کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 528
کی وجہ یہ ہے کہ اس حالت میں اس کا دماغ کام نہیں کرتا اور نیند کی حالت میں بھی اس وقت خواب دیکھتا ہے جب صرف اس کی آنکھیں سوتی ہیں ، دماغ بیدار رہتا ہے، لیکن جب دماغ بھی سو جاتا ہے تو وہ خواب نہیں دیکھتا یا دیکھتا بھی ہو تو دماغ اس کی روح کے مشاہدات کو ریکارڈ نہیں کرتا۔
معلوم ہوا کہ شیخ احمد نے پوری کائنات کے اللہ تعالیٰ سے متحد ہو جانے، اور اللہ تعالیٰ کے براہ راست مشاہدے کے جو دعوے کیے ہیں اور جو یہ فرمایا کہ ان کی صفات درحقیقت باری تعالیٰ ہی کی صفات ہیں تو یہ اور اس طرح کے دوسرے دعوے عالم شعور کے دعوے ہیں اور ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے، بلکہ یہ سب صوفیانہ قوتِ متخیلہ کی کرشمہ سازیاں ہیں اور جس ماحول میں وہ پیدا ہوئے اور پلے بڑھے تھے اور رات و دن صوفیا کے جو مشاہداتی واقعات بشکل ’’حقائق‘‘ سنتے تھے، صوفیانہ مراقبوں کے دوران وہم و خیال کی صورت میں خود ان کا مشاہدہ کرنا کچھ عجیب نہیں ہے، بلکہ زیادہ امکان اس کا ہے کہ شیطان نے یہ سارے مشاہدات کرائے ہوں ، کیونکہ بذریعہ مراقبہ ذات الٰہی کی معرفت حاصل کرنے کی کوشش یا اپنی ذات کو فنا کر کے ’’ذات واحد‘‘ سے متحد ہو جانے کا تجربہ غیر انبیائی طریقہ ہے، انبیائی طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کی معرفت کتاب و سنت میں مذکور اس کے اسماء و صفات کے ذریعہ حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس طریقے کے سوا بقیہ تمام طریقے شیطانی طریقے ہیں ۔
شیخ احمد اور ان جیسے محتاط صوفیا کے سوا جن دوسرے صوفیا سے منسوب اللہ تعالیٰ کے مشاہدے، اس کی معرفت اور کائنات اور اللہ تعالیٰ میں اتحاد کے واقعات کتابوں میں منقول ہیں وہ بھی تمام کے تمام عالم شعور کے واقعات ہیں اوران اکابر صوفیا نے یہ سارے واقعات ہوش و حواس کی حالت میں بیان کیے ہیں ، مگر یہ سب جھوٹے دعؤوں سے عبارت ہیں ، عالم واقعہ اور حقیقت سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے اور ’’حکایات الاولیاء‘‘ کی قسم کی کتابوں میں ان صوفیا کے کشف و کرامت کے جو واقعات بیان کیے گئے ہیں ان کی روشنی میں ان کا جھوٹ ہونا محتاج دلیل نہیں ہے۔
دراصل اکابر صوفیا جس ماحول میں پیدا ہوئے اور پلے بڑھے ہیں اس میں اسی طرح کی باتیں ہوتی ہیں اور اسی طرح کے واقعات بیان کیے جاتے ہیں ، اور ان صوفیا کے حلقوں میں قرآن کی تلاوت ختم کے لیے کی جاتی ہے اور اگر قرآن کی تفسیر بھی بیان کی جاتی ہے تو صوفیا کے عقائد اور نظریات کی روشنی میں ، رہی حدیث تو ان کے کوچے میں اس کی گزر کہاں ؟ اگر ان کی محفلوں میں احادیث بیان بھی کی جاتی ہیں تو وہ ۸۰ فیصد جھوٹی روایتیں ہوتی ہیں اور بقیہ ۲۰ فیصد کو صوفیانہ تاویل کی خراد پر چڑھا کر صوفی بنا لیا جاتا ہے، ایسی صورت میں ان کے من گھڑت مراقبوں میں ان کو وہی چیزیں تو نظر آئیں گی جو بچپن سے ان کو پلائی جاتی ہیں ، اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی ان کو لذت ملی ہی نہیں اور اس سے وہ واقف ہی نہیں ، اگر کوئی واقف بھی ہے تو ’’وحدۃ الوجود‘‘ کی صورت میں ، اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کے معانی اور مفاہیم کو وہ متکلمین کی تاویلوں کی شکل میں سمجھتے ہیں ، مختصر طور پر یہ کہ حق و باطل اور صواب و خطا میں تمیز کے لیے ان کے پاس کوئی