کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 527
صورتیں سایوں کی طرح نظر آ رہی تھیں ۔‘‘ ان کے پیر باقی باللہ کے بقول: ’’ان کو ایک طرح کی فنا حاصل ہو گئی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے کائنات کو شیٔ واحد کی شکل میں دیکھا جو ذات واحد سے متحد ہے۔ اس کے بعد وہ بے شعوری کے عالم میں چلے گئے، جس میں انہوں نے خدا تعالیٰ کا براہ راست مشاہدہ کیا اور انہیں محسوس ہوا کہ ان کی تمام صفات درحقیقت باری تعالیٰ کی صفات ہیں ، یہ فناء الفنا کا مقام تھا۔‘‘[1] شیخ احمد کے یہ تجربات اور مشاہدات فنا سے عبارت تھے یا فناء الفنا سے، یہ بعد کی بات ہے، پہلے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انہوں نے کائنات کو ’’ذات واحد‘‘ سے متحد دیکھا کیسے؟ ذات واحد غیر مرئی ہے، نہ وہ سر کی آنکھوں سے دیکھی جا سکتی ہے اور نہ چشم تصور سے؛ تصور کی گرفت میں وہی چیز آ سکتی ہے جس کی خارج میں کوئی مثال ہو اور اللہ تعالیٰ ’’بے مثل‘‘ ہے۔ پھر اگر انہوں نے بالفرض اللہ تعالیٰ کا مشاہدہ کیا بھی تھا تو یہ ان کے لوح قلب و ذہن پر مرتسم کس طرح ہوا وہ تو بے شعوری اور بے خودی کے عالم میں تھے اور صوفیا کی زبان میں ان پر سُکر، مدہوشی اور بے خودی کی کیفیت طاری تھی، اس حال میں آنکھیں تو دیکھتی ہیں ، لیکن ان کے مشاہدات دل و دماغ کے لوح پر مرتسم نہیں ہوتے اور انسان اس حال میں اپنی آنکھوں سے دیکھی جانے والی اشیاء کو اپنے دل و دماغ میں محفوظ نہیں کر پاتا، اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کے دلوں کو نیند کی گرفت میں آنے سے محفوظ رکھا ہے تاکہ وہ نیند و بیداری دونوں حالتوں میں وحی الٰہی وصول کر سکیں ، نبی کریم فداہ ابی و امی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ((یا عائشۃ! إن عینی تنامان و لا ینام قلبی)) [2] ’’اے عائشہ! میری آنکھیں تو سوتی ہیں اور میرا دل نہیں سوتا۔‘‘ ایک دوسری حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نیند کے بارے میں فرشتوں کا یہ قول نقل ہوا ہے: ((و النبی صلي اللّٰه عليه وسلم نائمۃ عیناہ و لا ینام قلبہ و کذلک الأنبیاء تنام أعینہم و لا تنام قلوبہم)) [3] ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں سو رہی ہیں اور آپ کا دل نہیں سوتا، اسی طرح انبیاء کی آنکھیں سوتی ہیں اور ان کے دل نہیں سوتے۔‘‘ یہاں یہ ذکر فائدے سے خالی نہیں کہ انسان بے ہوشی کی حالت میں خواب نہیں دیکھتا، جبکہ وہ زندہ ہوتا ہے، اس
[1] تصوف اور شریعت، ۱/۶۵-۶۶ [2] بخاری: ۱۱۴۷، ۲۰۱۳۔ مسلم: ۷۳۸ [3] بخاری: ۳۵۷۰، ۴۹۶۴، ۵۶۱۰، ۶۵۸۱، ۷۵۱۷۔ مسلم: ۱۹۲