کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 526
کے جانشین بناتا ہے کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے، تم بہت کم نصیحت قبول کرتے ہو۔‘‘ مقام عروج و نزول: عروج اور نزول صوفیا کی خودساختہ اصطلاحیں ہیں ، حاجی امداد اللہ کے اس دعوی: ’’حضرت غوث اس وقت مرتبۂ الوہیت میں تھے‘‘ کے معنی ہیں کہ اس وقت وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس طرح متحد ہو گئے تھے اور اس کی ذات میں وہ اس طرح ضم ہو چکے تھے کہ وہ خود الٰہ اور معبود بن گئے تھے اور اللہ تعالیٰ اور ان کے درمیان غیریت اور دوئی باقی نہیں رہی تھی صوفیا اسے مقام جمع الجمع یا مرتبۂ عروج سے تعبیر کرتے ہیں امداد اللہ چونکہ اپنے شیخ اکبر ابن عربی کے عقیدۂ وحدۃ الوجود پر تھے اس لیے ان کے مشرکانہ قول کا مطلب ہے کہ جب عبدالقادر جیلانی نے یہ کہا تھا کہ میرا پاؤں اللہ کے ولیوں کی گردنوں پر ہے، اس وقت وہ یا تو حقیقتاً مقام الوہیت پر فائز تھے یا ان کو یہ احساس تھا کہ وہی الٰہ اور معبود ہیں ۔ اسی طرح نزول بھی ایک صوفیانہ اصطلاح ہے جس کے معنی ہیں کہ جب فنا اور بقا کا تجربہ کرنے والا صوفی اللہ تعالیٰ کے ساتھ مکمل اتحاد اور انضمام کے احساس سے خالی الذہن ہو کر اپنے اور اللہ کے درمیان فرق اور غیریت کا احساس کرنے لگے۔ معین الدین چشتی کے قول: ’’عبدالقادر کا پاؤں میری آنکھ پر‘‘ کی رو سے امداد اللہ کے دعویٰ کہ ’’وہ مرتبۂ عبدیت یعنی نزول میں تھے‘‘ کا مطلب ہے کہ وہ معبود عبدالقادر کے عبد اور بندے کے مقام پر تھے، نہ کہ اللہ تعالیٰ کے بندے، اس لیے کہ انہوں نے جو یہ کہا تھا کہ ’’بل علی عینی‘‘ بلکہ میری آنکھ پر، تو اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ ان کا پاؤں میری گردن پر نہیں ، بلکہ میری آنکھ پر۔‘‘ ’’معین الدین کی یہ عبدیت عبدالقادر کی الوہیت سے افضل تھی، لہٰذا وہ ان سے افضل تھے۔‘‘ یہ ہے قطب العالم اور شیخ العرب و العجم کے دعاوی کا ماحصل، سوال یہ ہے کہ ان مسائل کا اسلام سے کیا تعلق؟ اور کیا فنا و بقا، جمع و فرق اور عروج و نزول کے یہ احساسات شیطانی وسوسوں کے سوا کچھ اور ہیں ؟ میرے یہ الفاظ بظاہر بڑے سخت ہیں مگر صوفیا کے دعؤوں کے مقابلے میں بہت ہلکے ہیں ، برصغیر کے صوفیا میں سب سے بلند قامت صوفی شیخ احمد سرہندی تھے، جنہوں نے کفر و شرک کے خلاف جہاد بھی کیا ہے اور جن کی زبان بڑی محتاط تھی انہوں نے خود اپنا اور دوسرے صوفیوں کا احتساب بھی کیا ہے، بایں ہمہ انہوں نے اپنے مراقبوں کے دوران اپنے مشاہدے میں آنے والے مظاہر کو جن الفاظ میں بیان کیا ہے ان کو پڑھ کر دل کانپ جاتا ہے۔ شیخ احمد حاجی امداد اللہ سے بہت زیادہ پاکیزہ صفت تھے اور دین کا علم بھی وہ اُن سے بہت زیادہ رکھتے تھے اس لیے انہوں نے اپنے جو مشاہدے بیان کیے ہیں ان کو جھٹلایا بھی نہیں جا سکتا، مگر عقل و شرع دونوں کی میزان میں ان کے بے وزن ہونے کی وجہ سے ان کو تسلیم بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اپنے روحانی تجربے بیان کرتے ہوئے وہ فرماتے ہیں : ’’پہلے ان پر بے خودی اور غیبت طاری ہوئی اس حال میں انہوں نے ایک بحر ذخار دیکھا جس میں اشیاء کی