کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 525
فضیلت دیتا تھا، اس سے پیروں اور بزرگوں کے بارے میں صوفیا کے عقائد پر مزید روشنی پڑتی ہے اور اس سوال کا جواب مل جاتا ہے کہ اس قوم میں ’’پیر پرستی‘‘ کہاں سے آئی ہے، فرماتے ہیں : ’’اس شخص نے دلیل پیش کی کہ جس وقت حضرت غوث پاک نے ’’قدمی علی رقاب اولیاء اللہ‘‘ (میرا پاؤں اولیاء اللہ کی گردنوں پر) فرمایا، تو حضرت معین الدین نے فرمایا: ’’بل علی عینی‘‘ (بلکہ میری آنکھ پر) یہ ثبوت افضلیت حضرت غوث پاک کا ہے۔‘‘ ’’میں نے کہا کہ اس سے تو فضیلت حضرت معین الدین صاحب کی حضرت غوث پر ثابت ہو سکتی ہے، نہ برخلاف اس کے، کیونکہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت غوث اس وقت مرتبۂ ’’الوہیت‘‘ یعنی عروج میں تھے اور حضرت شیخ مرتبۂ ’’عبدیت‘‘ یعنی نزول میں اور نزول کا افضل ہونا عروج سے مسلم ہے۔‘‘[1] غوث صرف اللہ تعالیٰ ہے: غَاثَ یَغُوْثُ غَوْثًا کے معنی ہیں : مدد کرنا، اعانت کرنا اور مصیبت اور پریشانی سے نجات دینا، عربی قاعدہ کے مطابق اگر مصدر کو صفت کے طور پر استعمال کیا جائے تو اس میں مبالغہ کا مفہوم پیدا ہو جاتا ہے، یعنی بہت زیادہ مدد کرنے والا، ہر مصیبت اور پریشانی سے نجات دینے والا۔ اللہ تعالیٰ کی صفت کے طور پر یا نام کے طور پر قرآن و حدیث میں غوث یا مغیث نہیں آیا ہے، البتہ ’’مستغاث‘‘ کے طور پر آیا ہے۔ (الانفال: ۱۹ و الاحقاف: ۱۷) صوفیوں نے شیخ عبدالقادر جیلانی کو ’’غوث‘‘ کا جو لقب دے رکھا ہے اس کے معنی ان کے من گھڑت فضائل و مناقب اور ان سے منسوب جھوٹی کرامتوں کی روشنی میں یہ ہیں کہ وہ غیر معمولی، غیر طبعی اور مافوق الاسباب امور میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں ، آفات و مصائب میں جو لوگ ان کو پکارتے تھے، ان کی دہائی دیتے تھے اور ان سے استغاثہ کرتے تھے وہ ان کی مدد کو پہنچ جاتے تھے یا اپنی جگہ بیٹھے ہوئے ان کو مصائب سے نجات دے دیتے تھے، اپنی زندگی میں تو وہ یہ کرتے ہی تھے، اپنی موت کے بعد بھی ان کی مدد، دست گیری اور اعانت کا سلسلہ جاری ہے تو کسی انسان کے بارے میں ایسا اعتقاد شرک ہے چاہے وہ رسول ہی کیوں نہ ہو، بلکہ غیر معمولی طاقت رکھنے والے فرشتوں یا جنوں سے بھی مذکورہ امور میں استغاثہ کرنا اور ان میں سے کسی کو ’’غوث‘‘ ماننا شرک اکبر ہے، چاہے اس کو غوث اعظم مانا جائے یا غوث اصغر: ﴿اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَ یَکْشِفُ السُّوْٓئَ وَ یَجْعَلُکُمْ خُلَفَآئَ الْاَرْضِ طئَ اِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ قَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَo﴾ (النمل: ۶۲) ’’آخر کون ہے جو لاچار کی دعا قبول کرتا ہے جب وہ اسے پکارتا ہے اور تکلیف دور کرتا ہے اور تمہیں زمین
[1] ص: ۳۴-۴۵