کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 523
مکلف تھے اور مومنین آپ کی اتباع میں اسی ایمان کے مکلف ہیں اور اس پر ان کے مومن ہونے کا انحصار ہے بایں معنی کہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے نام لے کر نبی یا رسول قرار دیا ہے اس کو اس کے نام کے تعین کے ساتھ نبی یا رسول ماننا کسی شخص کے مومن ہونے کی بنیادی شرائط میں سے ایک ہے، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قرآن و حدیث میں بیان کردہ نبیوں اور رسولوں کے ضمن میں جس شخص کا نام نہیں آیا ہے اس کو نبی یا رسول ماننا ایمان کے منافی ہے۔ ہر نبی اور رسول کی امت میں کسی شخص کے مقام و مرتبے کا تعین اس امر پر موقوف تھا کہ وہ اپنے نبی اور رسول کی اطاعت و اتباع میں کس درجے پر تھا جس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص اس اطاعت و اتباع میں سب پر امتیاز رکھتا تھا وہی اس امت کا افضل ترین شخص یا اس امت میں ’’ولی‘‘ تھا۔ اس امت میں بھی افضلیت کا معیار یہی اطاعت و اتباع رسول ہے اس تناظر میں اس امت کے افضل ترین فرد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ، پھر عمر رضی اللہ عنہ ، پھر عثمان رضی اللہ عنہ اور پھر علی رضی اللہ عنہ ہیں ۔ عثمان و علی رضی اللہ عنہما کی افضلیت کے مسئلے میں جن علمائے اسلام کا اختلاف ہے، یعنی جو عثمان رضی اللہ عنہ کو علی رضی اللہ عنہ سے افضل قرار دیتے ہیں ، یا جو عثمان رضی اللہ عنہ پر علی رضی اللہ عنہ کی افضلیت کے قائل ہیں ، یہ دونوں بھی اہل سنت و جماعت میں شمار ہوتے ہیں ۔[1] خلفائے راشدین کی افضلیت کے بعد مجموعی طور پر تمام صحابہ اپنے بعد آنے والے مسلمانوں سے افضل ہیں ۔ رسول اور غیر رسول کے درمیان موازنہ کرنا حرام ہے: امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں خلیفۂ اول ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے افضل ترین فرد ہونے کے باوجود ان کے اور کسی سابق نبی یا رسول کے درمیان موازنہ کرنا حرام ہے، ایسا خیال اسی شخص کے دل میں پیدا ہو سکتا ہے جو ’’رسول مطاع‘‘ اور رسول کے تابع کے فرق سے ناواقف ہے۔ اتباع سنت سے سب سے زیادہ دور صوفیا ہیں : گزشتہ صفحات میں تصوف اور اہل تصوف کے جو عقائد بیان کیے گئے ہیں ان کی روشنی میں پورے یقین قلب کے ساتھ یہ کہا جا سکتا ہے کہ حارث محاسبی کے بعد آنے والے صوفیا اپنے عقائد و اعمال میں سب سے زیادہ اتباع سنت سے دور رہے ہیں اور ہیں ، محاسبی سے قبل یا دوسرے لفظوں میں دوسری صدی ہجری تک تصوف نے کوئی عقائدی یا نظریاتی رنگ نہیں اختیار کیا تھا، اور عام طور پر صوفیا کو صلحاء کہا جاتا تھا، جس کی وجہ یہ تھی کہ ظاہری صلاح و تقویٰ اور کثرت عبادت و اعمال خیر میں یہ لوگ عام مسلمانوں پر امتیاز رکھتے تھے، لیکن کتاب و سنت سے ثابت عقائد سے مختلف عقائد بھی نہیں رکھتے تھے اور ان کے اندر بدعتوں کا ظہور بھی نہیں ہوا تھا، البتہ صلحاء کی یہ جماعت عمومی طور پر روایت حدیث میں ناقابل اعتبار تھی۔ امام مسلم نے اپنی کتاب صحیح مسلم کے مقدمہ میں ان صلحاء کے روایت حدیث میں ناقابل اعتماد ہونے کے مسئلہ
[1] عقیدہ واسطیہ، ص: ۴۸