کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 522
جائیں گے اور پانی پر چلنے والوں کے بارے میں کہا جائے گا کہ شیطان ان کو ڈوبنے سے بچا رہا تھا، ہوا میں اڑنے والے اس کے سہارے اڑ رہے تھے، انگاروں کی حرارت سے ان کے پیروں کو شیطان بچا رہا تھا اور جن شیروں پر وہ سواری کرتے تھے وہ حقیقی شیر نہیں تھے، بلکہ شیطانوں نے شیروں کی شکل اختیار کر رکھی تھی وغیرہ اسی پر ان سے منسوب دوسرے غیر معمولی واقعات کو قیاس کیا جا سکتا ہے۔ مذکورہ بالا تفصیلات کی روشنی میں اللہ تعالیٰ کا ولی صرف ایسا شخص ہے جو مومن و متقی ہو اور مومن و متقی کے اوصاف اوپر بیان کردہ تفصیلات میں موجود ہیں ۔ اگر ان اوصاف کے حامل یا ان اوصاف سے موصوف کسی مرد صالح یا خاتون صالح سے منسوب کوئی کرامت صحیح سند سے ثابت ہو تو وہ حق ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی تکریم ہے اور ایسی کرامتیں اللہ تعالیٰ اپنے اس طرح کے صالح بندوں یا بندیوں کے ہاتھوں اس لیے ظاہر فرماتا ہے تاکہ ان سے ان کے عقائد کی سلامتی، ان کے صلاح و تقویٰ اور ان کے درست طرز حیات کا یقین حاصل ہو۔ صوفی اللہ کا ولی نہیں : ولی اور ولایت کی بحث سب سے زیادہ صوفیا کے یہاں ملتی ہے اور صوفیا اپنے پیروں اور بزرگوں کے سوا کسی اور کو سچا مسلمان تک نہیں مانتے ولی ماننا تو دور کی بات ہے، جبکہ قرآن و سنت کا فیصلہ یہ ہے کہ اگر صوفی حد اعتدال پر بھی ہو اور اس کے عقائد و اعمال اکابر صوفیا کے عقائد و اعمال سے مختلف بھی ہوں تب بھی وہ اللہ کا ’’ولی‘‘ نہیں ہو سکتا جس کا سبب تصوف سے اس کی وابستگی ہے، کیونکہ ایک شخص کسی بھی درجے میں صوفی بھی ہو اور مومن و متقی بھی دونوں میں تضاد ہے، میں ان شاء اللہ آگے یہ دکھاؤں گا کہ صوفیا حق اور اہل حق کے سب سے بڑے دشمن رہے ہیں اور حارث محاسبی کے بعد آنے والوں یا دوسرے لفظوں میں متاخرین صوفیا میں کوئی بھی ایسا شخص نہیں پیدا ہوا ہے جس کے عقائد و اعمال کتاب و سنت کی تعلیمات پر مبنی رہے ہوں یا معروف زبان میں وہ اہل سنت و جماعت کے طریقے کا پیرو رہا ہو۔ صوفیا کو انبیاء سے تشبیہ دینا کفر ہے: اللہ تعالیٰ کے نبی اور رسول اس کی مخلوق میں اس کے سب سے زیادہ برگزیذہ بندے رہے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کے دو ایسے اوصاف بیان فرمائے ہیں جن میں ساری خوبیاں جمع ہو گئی ہیں ؛ یعنی مصطفون اور اخیار، مصطفون مصطفی کی جمع ہے جس کا اطلاق ایسے شخص پر ہوتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے چن لیا ہو، منتخب فرما لیا ہو اور دوسروں پر فضیلت بخشی ہو اور اخیار خیر کی جمع ہے جس کے معنی ہیں : سب سے پسندیدہ، سب سے بہتر اور سب پر فوقیت رکھنے والا، مختصر لفظوں میں خیر و بھلائی کا جامع اور سراپا خیر۔ انبیاء اور رسولوں پر اجمالاً و تفصیلاً ایمان کسی کے مومن ہونے کی بنیادی شرط ہے، قرآن کے مطابق ان کے نبی و رسول ہونے اور خود اپنے نبی اور رسول ہونے پر ایمان کے مکلف نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی تھے، بلکہ اپنی امت کے ہر فرد سے پہلے