کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 521
کی شرط کی وجہ سے صوفیا کے نام نہاد اولیا اس صفت اور لقب کے مستحق نہیں ہیں اور تصوف کی کتابوں میں جن لوگوں کی کرامتوں کا ذکر ہے، اگر وہ سب نہیں تو ان کی اکثریت صحیح العقیدہ مسلمان نہیں تھی، بلکہ یہ سب فنا و بقا، جمع و فرق، وحدۃ الوجود اور تصور شیخ وغیرہ کے عقائد رکھتے تھے اور رکھتے ہیں اور ’’قولا‘‘ نہ سہی تو زبان اعمال اور زبان حال سے اپنے پیروں اور بزرگوں کو ان تمام صفات سے موصوف مانتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہیں اور اپنے خاص اذکار و اشغال اور ریاضتوں کے حوالہ سے بہت بڑے ’’مبتدع‘‘ ہیں ، ایسی صورت میں یہ اللہ کے ’’ولی‘‘ کیسے ہو سکتے ہیں اور جب اللہ کے ’’ولی‘‘ نہیں ہو سکتے تو ان سے منسوب کرامتیں بشرط صحت شیطانوں کے ’’خلافِ عادت‘‘ اور ’’خلاف معمول‘‘ -خارق عادت- اعمال ہو سکتے ہیں مثال کے طور پر تصوف کی کتابوں میں جن صوفیوں کے مناقب کے ضمن میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ پانی پر چلتے تھے، ہوا میں اڑتے تھے، آگ ان پر اثر نہیں کرتی تھی اور درندہ جانوروں مثلاً شیروں وغیرہ پر سوار ہو کر سفر کرتے تھے، اولاً تو یہ واقعات ان کی ذہنی اختراع ہیں ، کیونکہ یہ کسی قابل اعتماد سند سے نہیں بیان ہوئے ہیں اور یہ بات ثابت اور ناقابل تردید ہے کہ اس امت سے نسبت کا دعویٰ کرنے والوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے جھوٹی روایتیں بیان کرنے والوں میں سرفہرست صوفیا ہیں : ((یجری الکذب علی لسانہم و لا یتعمدون الکذب)) جھوٹ ان کی زبانوں پر جاری رہتا ہے اور وہ بالقصد کذب بیانی نہیں کرتے۔‘‘[1] اس عبارت کا مطلب ہے کہ کذب بیانی ان کی عادت بن چکی ہے کہ وہ بلا ارادہ جھوٹ بولتے ہیں اور جھوٹی روایتیں بیان کرتے ہیں ۔ اب اگر تحقیق کرنے سے یہ ثابت ہو جائے کہ یہ واقعات سند کے اعتبار سے صحیح ہیں جس کا امکان بہت کم ہے تو جس شخص سے یہ منسوب ہیں اس کی سیرت و کردار کو کتاب و سنت کی کسوٹی پر رکھ کر پرکھا جائے، دیکھا جائے کہ اس کے عقائد کا ماخذ کتاب و سنت ہے یا علم کلام وہ وہی عقیدۂ توحید رکھتا تھا جو کتاب و سنت میں کھول کھول کر بیان کر دیا گیا ہے اور جس کی دعوت دینے کے لیے تمام انبیاء اور رسول بھیجے گئے تھے یا وہ توحید سے وحدۃ الوجود مراد لیتا تھا، وہ اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کو ان کے الفاظ سے نکلنے والے معنوں میں لیتا تھا، یا متکلمین کی طرح ان کی تاویل و تحریف کرتا تھا، یا صوفیا کی طرح ان کو کائنات کے مظاہر مانتا تھا؟ اسی طرح حدیث سے متعلق اس کا نقطۂ نظر کیا تھا؛ آیا وہ اس کو قرآن کی طرح شرعی حجت مانتا تھا یا اس میں اور قرآن میں فرق کرتا تھا؟ اگر صاحب کرامت کے عقائد مذکورہ بالا سوالوں کی پہلی شق کے ترجمان تھے تو اس کی عملی زندگی کو دیکھا جائے کہ آیا وہ سنتِ رسول کے مطابق تھی، یا وہ من گھڑت عبادتوں ، اوراد و اذکار اور اعمال و اشغال پر عمل پیرا تھا؟ اگر اس سوال کا جواب اثبات میں ہے تو اس سے منسوب خارق عادت واقعات کو کرامت شمار کیا جائے گا، ورنہ بصورت دیگر اس طرح کے واقعات شیطان کے ہاتھوں رونما ہونے والے غیر معمولی اور خلاف معمول واقعات شمار کیے
[1] صحیح مسلم: نمبر ۳۹