کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 52
ہے کہ یہ علم کے ذرائع ہیں جن کے سرفہرست آلہ سماع کان ہے۔ پورے قرآن پاک میں ان اعضاء کا ذکر اسی ترتیب سے آیا ہے۔ یقین کے درجات: یقین کے تین درجات ہیں : علم الیقین، عین الیقین، اور حق الیقین۔ یقین کے درجات کی مثال سے وضاحت: ۱۔ ایک شخص جو میرے نزدیک سچا ہے مجھ سے کہتا ہے کہ اس کی جیب میں سیب ہے تو مجھے اس کے سچا ہونے کی وجہ سے اس کی جیب میں سیب کے ہونے کا علم الیقین ہو جاتا ہے۔ ۲۔ اب وہ جیب سے سیب نکال کر مجھے دکھاتا ہے، اس وقت مجھے اس کے پاس سیب کے ہونے کا عین الیقین ہو جاتا ہے۔ ۳۔ تیسرے مرحلے میں وہ مجھے سیب دیتا ہے اور میں اسے کھاتا ہوں ۔ اس وقت مجھے اس کے وجود کا حق الیقین ہو جاتا ہے۔ ان تینوں حالتوں میں یقین کے درجات بدلے ہیں ، ایسا نہیں ہوا ہے کہ کسی حالت میں یقین شک یا گمان رہا ہو۔ روایت حدیث میں یقین کے درجات: ۱۔ ایک صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ فرماتے ہوئے اپنے کانوں سے سنتا ہے، اور اپنی آنکھوں سے آپ کو دیکھتا بھی ہے تو اس کو اس بات کا عین الیقین اور حق الیقین ہوتا ہے کہ اس نے جو کچھ سنا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سنا ہے کسی اور ان کی زبان سے نہیں ۔ ۲۔ وہی صحابی اپنی طرح کے کسی دوسرے صحابی یا تابعی سے بیان کرتے ہوئے کہتا ہے: سمعت النبی صلي اللّٰه عليه وسلم یقول: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے… تو اس صحابی یا تابعی کو اس پہلے صحابی کی روایت کے حدیث رسول ہونے کا علم الیقین ہوتا ہے، اس لیے کہ اس کے نزدیک وہ سچا ہے اور اس کے سچا ہونے کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ اگر اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد یا اس کا کچھ حصہ یاد نہ رہ گیا ہوتا تو وہ اس کی روایت نہ کرتا یہ درست ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی بھی اعتقاداً کذب بیانی سے معصوم نہیں تھا اور نہ ہوگا، مگر عملاً اور تجربتاً کسی صحابی کا جھوت بولنا اور وہ بھی روایت حدیث میں اگر محال نہیں ، تو نا ممکن ضرور تھا، اس لیے کہ حدیث ماخذ شریعت ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ایسی بات منسوب کر کے بیان کرنا جو آپ نے نہ فرمائی ہو شریعت سازی ہے جو حرام ہے جس کا صدور کسی ایسی جماعت کے کسی فرد سے ناممکن تھا جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْ بِہٖ وَ عَزَّرُوْہُ وَ نَصَرُوْہُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ مَعَہٗٓ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ﴾ (الاعراف: ۱۵۷) ’’تو جو لوگ اس پر ایمان لائے اور اس کو قوت دی اور اس کی مدد کی اور اس نور کی پیروی کی جو اس کے ساتھ