کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 519
ہے کہ یہ واقعہ صحیح ہو سکتا ہے اور ہندو نے اس موقع پر کوئی خوفناک اور مہیب چیز ضرور دیکھی تھی جس سے وہ لرزہ براندام ہو گیا تھا اور وہ چیز شیطان سے عبارت تھی اس لیے کہ اس شخص نے اللہ کے بجائے اس کے ایک کمزور بندے کو پکار کر ایمان کا طوق اپنی گردن سے اتار دیا تھا اور ابلیس کا بندہ بن گیا تھا اس لیے ضلالت و گمراہی میں غرق ایک شخص کی مدد کے لیے وہ وہاں پہنچ گیا، تاکہ وہ شرک کی تاریکی میں اپنا سفر جاری رکھے اور حق سے دور ہوتا جائے۔ اور فعلاً ایسا ہو رہا ہے کہ پیروں ، اور ولیوں کو صفات الٰہی سے موصوف ماننے والے یہ اور اسی طرح کی حکایتیں پڑھ کر توحید کی روشنی سے نکل کر شرک کی اتھاہ تاریکیوں میں غرق ہوتے جا رہے ہیں ﴿اَللّٰہُ یَسْتَہْزِیُٔ بِہِمْ وَ یَمُدُّ ہُمْ فِیْ طُغْیَانِہِمْ یَعْمَہُوْنo﴾ (البقرۃ: ۱۵) ’’اللہ ان کا مذاق اڑاتا ہے اور ان کو ان کی سرکشی -کفر و فجور- میں ڈھیل دے رہا ہے کہ وہ حیران سرگرداں پھر رہے ہیں ۔‘‘ ﴿وَ ہُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنَعًاo﴾ (الکہف: ۱۰۲) ’’اور وہ سمجھتے ہیں کہ حقیقت میں وہ اچھا کام کر رہے ہیں ۔‘‘ میں نے اوپر جو کچھ عرض کیا ہے اس کی تاکید کر کے اس کو دلوں میں جگہ دینے اور اپنے عقیدۂ توحید کی تجدید و تصحیح کے لیے سورۂ نمل کی آیات ۶۰-۶۶ کو پڑھ لیجیے، اگر آپ عربی زبان جانتے ہیں اور قرآن سمجھتے ہیں تو فبہا، ورنہ کسی ترجمۂ قرآن میں ان آیتوں کا ترجمہ پڑھ لیجیے، ان شاء اللہ تعالیٰ پھر آپ اس طرح کے مشرکانہ واقعات کو پیروں کی کرامت نہیں سمجھیں گے۔ نظام الدین اولیا نے جو یہ فرمایا ہے کہ ’’دیکھئے اس نے کیا دیکھا تھا اور کیا اسے دکھلایا گیا تھا؟‘‘ تو اس پر عرض ہے کہ اس نے جو چیز دیکھی ہو گی اس کا تصور کچھ مشکل نہیں ہے دوسرے لفظوں میں اس نے کوئی ایسی خوفناک چیز دیکھی تھی جس سے اس کے ہوش و حواس اڑ گئے اور اس نے تلوار زمین پر پھینک دی، مگر وہ خوفناک چیز نہ تو اس کے پیر اور شیخ سے عبارت تھی اور نہ کسی فرشتہ سے، وہ اس کا پیر اور شیخ اس لیے نہیں ہو سکتا تھا کہ اس کے لیے اپنے مرید کی پکار سن کر اس کی مدد کے لیے چشم زدن میں وہاں پہنچنا ناممکن تھا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿یُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّہَارِ وَ یُوْلِجُ النَّہَارَ فِی الَّیْلِ وَ سَخَّرَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ کُلٌّ یَّجْرِیْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّی ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ لَہُ الْمُلْکُ وَ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ مَا یَمْلِکُوْنَ مِنْ قِطْمِیْرٍo اِنْ تَدْعُوْہُمْ لَا یَسْمَعُوْا دُعَآئَ کُمْ وَ لَوْ سَمِعُوْا مَا اسْتَجَابُوْا لَکُمْ وَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یَکْفُرُوْنَ بِشِرْکِکُمْ وَ لَا یُنَبِّئُکَ مِثْلُ خَبِیْرٍo﴾ (الفاطر: ۱۳-۱۴) ’’وہ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور اس نے سورج اور چاند کو مسخر کر رکھا ہے، ہر کوئی ایک مقررہ وقت تک کے لیے دوڑ رہا ہے وہی اللہ تمہارا رب ہے اسی کی بادشاہی ہے اور اس کے سوا جن کو تم پکارتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے مالک بھی نہیں ہیں ، اگر تم ان کو پکارو تو وہ تمہاری پکار