کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 518
آفات و مصائب میں گھر جانے کے موقع پر ان کو پکارنا، ان کے نام پر جانور ذبح کرنا، ان کے لیے نذر ماننا اور ان کی قبروں کا طواف کرنا وغیرہ۔ کرامات الاولیاء کے موضوع پر لکھی گئی کتابوں میں سینکڑوں نہیں ، ہزاروں ایسے دعوے کیے گئے ہیں کہ ان کے پیر اور ولی ہر فریادی کی فریاد پر اس کے پاس پہنچ کر اس کی فریاد رسی کرتے ہیں ، اس کی مراد برلاتے ہیں ، اس کی مشکلات کو دور کر دیتے ہیں اور آفتوں سے اس کو نجات دیتے ہیں ۔ قرآن مشرکین کے بارے میں یہ صراحت کرتا ہے کہ مصائب و آفات میں گھر جانے کے موقع پر وہ صرف اللہ کو پکارتے تھے اور صرف اس سے یہ درخواست کرتے تھے کہ وہ ان کو ان سے نجات دے۔[1] مشرکین کے اس طرز عمل کے بالمقابل ’’محبوب الٰہی‘‘ نظام الدین اولیا کے ملفوظات: ’’فوائد الفؤاد‘‘ میں درج ایک صوفی کا واقعہ ملاحظہ فرما لیجیے، فرماتے ہیں : ’’ایک نقیب نیشاپوری محمد نام، مرد بزرگ راسخ الاعتقاد تھے، میں نے ان کی زبانی سنا وہ فرماتے تھے کہ ’’ایک مرتبہ میں ملک گجرات کے سفر میں تھا، اس زمانہ میں وہاں ہندوؤں کا راج تھا، میرے ساتھ اور دو تین شخص ہم سفر تھے، الا ہمارے پاس کوئی ہتھیار نہ تھا، ان دنوں وہاں بازار غارت گری گرم رہتا تھا۔ ایک روز راستہ میں یکایک ایک ہندو شمشیر برہنہ ہمارے پاس آیا، دیکھنے سے خوف کی حالت ہم پر طاری ہوئی، جس وقت وہ میرے نزدیک آیا میں نے بآواز بلند کہا: ’’شیخ حاضر باش‘‘ یہ سنتے ہی اس ہندو نے نہ جانے کیا دیکھا کہ لرزہ اس کے جسم میں پڑ گیا، تلوار ہاتھ سے چھوٹ کر گر پڑی۔ گڑگڑا کر کہتا تھا کہ ’’مجھے امان دو‘‘ میں حیران تھا کہ اسے کس بات سے امان دوں ۔ابھی یہی مجھ پر حاوی تھا آخر اسے میں نے امان دی وہ تلوار بھی اٹھا کر اسے دے دی اور وہ اپنی راہ اور ہم بھی اپنی راہ روانہ ہو گئے۔‘‘ خواجہ ذکر اللہ بالخیر -نظام الدین اولیا- نے بعد اتمام اس حکایت کے ارشاد فرمایا کہ ’’دیکھئے اس نے کیا دیکھا تھا اور کیا اسے دکھلایا گیا تھا۔‘‘ [2] تبصرہ: یہ واقعہ صحیح ہو سکتا ہے، مگر نظام الدین اولیا کو اپنے نام، لقب اور شہرت کی لاج رکھتے ہوئے، آنکھوں میں آنسو لا کر اسے بیان کرنے کے بجائے اس پر اپنے گہرے افسوس کا اظہار کرنا چاہیے تھا، کیونکہ وہ مرد بزرگ اگر بقول ان کے راسخ الاعتقاد تھا بھی، تو مصیبت کی گھڑی میں اپنے پیر کو پکار کر اسلام سے خارج ہو گیا تھا اور وہاں غیر موجود اس کے پیر نے نہ اس کی پکار سنی تھی اور نہ سن سکتے تھے اور نہ وہ وہاں آئے، اگر وہ وہاں بالفرض آتے بھی تو انسانی شکل میں آتے، کیونکہ نہ تو وہ اپنی وہ شکل بدلنے پر قادر تھے جس شکل میں اللہ نے ان کو پیدا کیا تھا اور نہ وہ فرشتوں اور جنوں کی طرح کوئی ایسی غیر مرئی صورت ہی اختیار کر سکتے تھے، جس کو ہندو تو دیکھتا مگر وہ پکارنے والا شخص نہ دیکھا، میں نے یہ عرض کیا
[1] ص ۱۶۲-۱۶۳ [2] یونس: ۲۲۔ عنکبوت: ۶۵۔ لقمان: ۳۲