کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 516
بڑوں کی اس توقیر، عزت اور احترام کی تاکید کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کوئی بھی شخص مطاع، متبوع اور مقتدی نہیں ہے، حتیٰ کہ خلفائے راشدین کی سنت کی اتباع اور پیروی بھی صرف اسی وجہ سے فرض ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا ہے، اور یہ بھی اس صورت میں جبکہ ان کا کوئی حکم یا قول، یا فعل قرآن و سنت کی کسی نص کے خلاف نہ ہو۔
تنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ایسی ہے جو غیر مشروط اور مطلق مطاع ہے اور یہ چیز شہادتین میں داخل ہونے کی وجہ سے کسی کے مومن ہونے کی بنیادی شرط ہے، مگر اس شرط کے ساتھ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف اللہ کا بندہ اور رسول مانا جائے اور الوہیت اور ربوبیت کی کسی بھی صفت سے آپ کو موصوف نہ مانا جائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جن پاکیزہ صفات سے موصوف تھے، آپ اخلاق انسانی کی جس بلندی پر فائز تھے اور آپ کی حیات پاک جن ظاہری اور باطنی محاسن سے مزین تھی اور اس پر مزید یہ کہ آپ کو جو غیر معمولی اور بے مثال جسمانی اور روحانی قوت حاصل تھی ان میں سے کوئی ایک بھی لوگوں کو آپ کی پرستش پر آمادہ کرنے کے لیے کافی تھی، لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے اور رسول کے ذریعے ہمیں جو کلم دیا ہے؛ یعنی ’’أشہد أن لا إلٰہ إلا اللہ و أشہد أن محمدا رسول اللہ‘‘ میں یہ گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور یہ گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں ۔‘‘ تو اس کلمہ نے اللہ تعالیٰ کی الوہیت و ربوبیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شریک ہونے کا دروازہ قیامت تک کے لیے بند کر دیا ہے اور جو شخص بھی صدق دل سے یہ گواہی دے گا وہ کسی بھی حال میں یہ اعتقاد نہیں رکھ سکتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی ربوبیت، الوہیت اور امور کائنات میں تصرف میں بھی شریک ہیں ۔ اس کلمہ شہادت کا پہلا حصہ اس گواہی اور اعتراف سے عبارت ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ معبود برحق ہے اور اس کے سوا لوگوں نے جو معبود بنا رکھے ہیں وہ سب معبودان باطل ہیں :
﴿ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ ہُوَ الْحَقُّ وَ اَنَّ مَا یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہِ الْبَاطِلُ وَ اَنَّ اللّٰہَ ہُوَ الْعَلِیُّ الْکَبِیْرُo﴾ (لقمٰن: ۳۰)
’’یہ اس لیے کہ درحقیقت اللہ ہی حق ہے اور اس کے سوا لوگ جس کو پکارتے ہیں بے شک وہ باطل ہے اور حقیقت میں اللہ ہی سب سے بلند اور سب سے بڑا ہے۔‘‘
اس کلمۂ شہادت کا دوسرا حصہ محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے کی گواہی دینا ہے۔ جس کا تقاضا یہ ہے کہ آپ نے جو خبریں دی ہیں ان کی تصدیق کی جائے، آپ نے جو احکام دیے ہیں ان کی تعمیل کی جائے، جن باتوں سے روکا ہے ان سے باز رہا جائے، اور عبادت کا جو طریقہ بتا دیا ہے اور کر کے دکھا دیا ہے صرف اسی کے ذریعہ اللہ کی عبادت کی جائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دینے کا تقاضا یہ بھی ہے کہ یہ اعتقاد دل میں جگہ نہ پائے کہ ربوبیت،