کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 515
تھانوی نے جھوٹے موحد کے باطل عقیدے پر اعتراض کرنے والے کو غبادت سے موصوف کیا ہے جبکہ اس لقب کا مستحق وحدۃ الوجود کا مدعی تھا، نہ کہ معترض، اور مولانا نے یہ نہیں بتایا کہ مذکورہ صوفی خنزیر میں کس طرح تبدیل ہوا، پھر انسان کی شکل میں واپس کس طرح آیا، کیونکہ ایسا کرنا انسانی قدرت سے باہر ہے۔ پھر اگر حلوا اور غلاظت میں اتحاد اور عینیت بقول ان کے حقیقی تھی، تو ان کے احکام و آثار میں اختلاف یا دوئی کہاں سے آئی؟ پیر پرستی: اسلام دین فطرت ہے اور بڑوں کی عزت، احترام اور توقیر اسلامی اخلاقیات کا اہم باب ہے،اسلامی معاشرہ اپنے افراد کے درمیان الفت و محبت اور رحم و شفقت کی بنیادوں پر قائم ہے، اسی لیے اسلام میں چھوٹوں پر رحم و شفقت اور بڑوں کے احترام، ادب اور توقیر پر زور دیا گیا ہے، چنانچہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: ایک بزرگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شرف ملاقات حاصل کرنے کی غرض سے آئے تو لوگوں نے مجلس میں ان کے لیے کشادگی پیدا کرنے میں دیر کی اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لیس منا من لم یرحم صغیرنا و لم یؤقر کبیرنا)) [1] ’’وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹے پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑے کی عزت نہ کرے۔‘‘ عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((لیس منا من لم یرحم صغیرنا و یعرف شرف کبیرنا)) ’’وہ ہم میں سے نہیں ہے جو ہمارے چھوٹے پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑے کی بزرگی نہ پہچانے۔‘‘ ان دونوں حدیثوں میں جو بات قابل توجہ اور قابل غور و تدبر ہے وہ یہ کہ ان میں چھوٹوں پر رحم و شفقت کو بڑوں کی عزت و توقیر پر مقدم رکھا گیا ہے، کیونکہ چھوٹوں پر رحم و شفقت انسانیت کا تقاضا اور انسانیت کی دلیل ہے اور اس صفت سے موصوف انسان ایسا محض اپنی بے آمیز فطرت اور انسانی جذبے سے کرتا ہے جس سے اس کی کوئی مادی غرض نہیں ہوتی، اور چھوٹے کسی کو کوئی مادی منفعت پہنچا بھی نہیں سکتے، جبکہ بڑوں کی عزت و توقیر مخلصانہ بھی ہوتی ہے اور مصلحت آمیز بھی اور منافقانہ بھی۔ بڑائی اور بزرگی عمر کے اعتبار سے بھی ہوتی ہے، رشتہ و قرابت میں اقدمیت سے بھی، علم و فضل میں بڑائی کے اعتبار سے بھی اور عہدۂ و منصب کے اعتبار سے بھی اور اسلام میں ان تمام تمام اعتبارات کی، ان کے مقام و مرتبے کے لحاظ سے رعایت کی گئی ہے، کیونکہ اس میں جہاں دنیا اور آخرت کی بھلائی مضمر ہے، وہیں اس سے معاشرے میں توازن قائم رہتا ہے، اسلام کے ان بلند معانی سے ان نمبروں کی حامل حدیثوں سے واقفیت حاصل کی جا سکتی ہے۔[2]
[1] ترمذی: ۱۹۱۹ [2] بخاری: ۷۳۷۶۔ مسلم: ۲۳۱۹۔ ابو داود: ۴۹۴۱، ۴۹۴۲۔ ترمذی: ۱۹۲۴