کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 514
تخفیف بھی کر سکتے تھے اس طرح آپ کا قد مزید بلند ہو جاتا۔ آپ کے اس ارشاد ’’ یہ باب اشارہ سے ہے تفسیر نہیں ‘‘ سے اس قول کی شناعت اور سنگینی کم نہیں ہو سکتی۔ آپ نے اس کے بعد جو یہ فرمایا ہے کہ ’’جب لا إلٰہ إلا ہو‘‘ سے غیر کی نفی ہو گئی تو سوال وارد ہوا کہ یہ کائنات کیا ہے؟ لہ الأسماء الحسنی‘‘ میں اس کا جواب ہے کہ ان کے جو اسماء ہیں یہ کائنات ان کے مظاہر ہیں موجود مستقل نہیں ۔‘‘ آپ سے باادب یہ سوال ہے کہ کیا واقعۃً یہ ساری باتیں اس آیت مبارکہ میں موجود ہیں اور کیا واقعۃً یہ آیت یہ بتا رہی ہے کہ کائنات اللہ کے اسماء کے مظاہر سے عبارت ہے؟ اگر آپ کا یہ دعویٰ درست ہے تو پھر آپ نے اپنی تفسیر میں یہ باتیں لکھنے سے کیوں گریز کیا اور ان کے برعکس یہ کیوں تحریر فرمایا کہ ’’اس کے بڑے اچھے اچھے نام ہیں جو اس کے اوصاف و کمالات پر دلالت کرتے ہیں ، سو قرآن ایسی ذات مستجمع الصفات کا نازل کیا ہوا ہے اور یقینی حق ہے؟ آپ کی اس عبارت سے وحدۃ الوجود کے قائلین کے اس دعویٰ کی تائید نہیں ہوتی، بلکہ اظہار تک نہیں ہوتا کہ کائنات اسمائے الٰہی کا مظہر ہے۔ شیخ احمد سرہندی شیخ تھانوی سے زیادہ حق گو تھے اور اعلان حق و حقیقت میں ان سے بہت زیادہ جری بھی تھے، وہ تصوف کے ’’خول‘‘ سے باہر تو نہیں نکلے، مگر انہوں نے تصوف کے بہت سے افکار پر سخت تنقید کرنے سے گریز بھی نہیں کیا جن میں سے ایک یہی ’’وحدۃ الوجود‘‘ کا نظریہ ہے جس کو انہوں نے صریح لفظوں میں باطل قرار دیا ہے اور یہاں تک لکھ دیا ہے کہ ابن عربی سے پہلے کے صوفیا کے یہاں اس کا ذکر نہیں ملتا۔ وحدۃ الوجود کی ایک مثال: مولانا تھانوی نے ’’امداد المشتاق‘‘ میں حاجی امداد اللہ کے حوالہ سے ایک واقعہ بیان کیا ہے بطور لطیفہ اسے پڑھ کر، اس خشک بحث کے مطالعہ سے لاحق ہونے والی سرگرانی دور کر لیجیے۔ ایک موحد -وحدۃ الوجود کا عقیدہ رکھنے والا- سے لوگوں نے کہا کہ اگر حلوا اور غلیظ ایک ہیں تو دونوں کو کھاؤ، انہوں نے بشکل خنزیر ہو کر گوہ -بُراز، پاخانہ- کو کھا لیا، پھر بصورت آدمی ہو کر حلوا کھایا۔ اس کو حفظ مراتب کہتے ہیں جو واجب ہے۔ اس گندے اور خود اپنی تکذیب کرنے والے واقعہ کو نقل کرنے کے بعد ’’حکیم الامت‘‘ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’اس معترض کی غبادت کے سبب اس تکلف و تصرف کی ضرورت پڑی، ورنہ جواب ظاہر ہے کہ یہ اتحاد مرتبۂ حقیقت میں ہے نہ کہ احکام و آثار میں۔‘‘[1]
[1] ص: ۱۰۰