کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 513
جواب ضرور مل گیا کہ ’’صوفیا نا آشنائے توحید کیوں ہیں ؟ مولانا تھانوی نے ’’امداد المشتاق إلی اشرف الاخلاق‘‘ میں وحدۃ الوجود کے مسئلہ میں قرآن پاک کی ایک آیت سے اپنے پیر و مرشد حاجی امداد اللہ کے استدلال کا ذکر کرتے ہوئے اس کی تائید کی ہے جو ان کی کھلی ’’مداہنت‘‘ ہے، اس لیے کہ یہ استدلال خلاف حق ہونے کے ساتھ اس تفسیر کے بھی خلاف ہے جو انہوں نے بیان القرآن میں اس کی کی ہے، چنانچہ حاجی امداد اللہ کا قول ہے: ﴿اَللّٰہُ لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ لَہُ الْأَسْمَائُ الْحُسْنٰی﴾ اس آیت میں ایک راز مکنون ہے؛ پہلے نفی غیر کی فرما کر اثبات وحدۃ الوجود کا فرمایا ہے، بعدہ فرماتا ہے کہ سوائے میرے جو کچھ ہے وہ اسماء و صفات میری ہے، یعنی جو کچھ غیر ذات اس کے معلوم ہو وہ سب مظاہر صفات ہیں ۔ قرآن کی اس تفسیر باطنی، بلکہ تحریف کی تائید کرتے ہوئے مرشد تھانوی فرماتے ہیں : ’’مطلب یہ ہے کہ جب ’’لا إلٰہ إلا ہو‘‘ سے غیر کی نفی ہو گئی تو سوال وارد ہوا کہ یہ کائنات کیا ہے؟ ’’لہ الأسماء الحسنی‘‘ میں اس کا جواب ہے کہ ان کے جو اسماء ہیں یہ کائنات ان کے مظاہر ہیں ، موجود مستقل نہیں ، یہ باب اشارہ سے ہے تفسیر نہیں ۔‘‘ [1] مولانا تھانوی نے اپنے پیر و مرشد کی تحریف قرآنی کی تائید کرتے ہوئے جو یہ فرمایا ہے کہ ’’جب ’’لا إلٰہ إلا ہو‘‘ سے غیر کی نفی ہو گئی‘‘ اگر یہ صحیح ہے تو پھر اس کی تفسیر کرتے ہوئے انہوں نے اپنی کتاب میں جو یہ فرمایا ہے کہ ’’اللہ ایسا ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود ہونے کا مستحق نہیں ، اس کے بڑے اچھے اچھے نام ہیں جو اوصاف و کمالات پر دلالت کرتے ہیں ‘‘ وہ کیا ہے؟ ظاہر سی بات ہے کہ دونوں باتیں درست نہیں ہو سکتیں ، کیونکہ ان میں حق و باطل کا فرق ہے؛ امداد المشتاق کی عبارت یہ اعلان کر رہی ہے کہ ’’لا إلہ إلا ہو‘‘ سے غیر اللہ کے وجود یا موجود ہونے کی نفی کی گئی ہے جو ایک باطل نظریہ اور عقیدہ ہے اور آیت کے الفاظ اشارۃً بھی اس پر دلالت نہیں کرتے، جبکہ بیان القرآن کی عبارت اس امر پر بصراحت دلالت کر رہی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے اس کے لیے سب سے اچھے نام ہیں ، یعنی بیان القرآن کی عبارت غیر اللہ کے وجود کی نہیں ، بلکہ الوہیت غیر اللہ کی نفی کر رہی ہے؛ پہلی بات کفر و الحاد ہے اور دوسری بات توحید الوہیت کا اثبات۔ امداد اللہ نے عربی زبان اور دینی علوم سے نابلد ہونے، توحید کے لذت آشنا نہ ہونے اور وحدۃ الوجود کے داعی ہونے کی وجہ سے اگر کفر و الحاد کی بات کہہ دی تھی تو صوفی اور مرید ہونے سے پہلے ایک عالم دین اور مفسر قرآن ہونے کی حیثیت سے آپ پر یہ فرض تھا کہ آپ ان کی غلطی واضح کر دیتے اور اس کو بشری کمزوری پر محمول کر کے اس کی شدت میں
[1] ص: ۹۰