کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 512
﴿بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اَنّٰی یَکُوْنُ لَہٗ وَلَدٌ وَّ لَمْ تَکُنْ لَّہٗ صَاحِبَۃٌ وَ خَلَقَ کُلَّ شَیْئٍ وَ ہُوَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌo﴾ (الانعام: ۱۰۱) ’’وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ، اس کی اولاد کیسے ہو گی جبکہ اس کی کوئی بیوی نہیں اور اس نے ہر چیز پیدا کی ہے اور وہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ ازل سے ہے جب کسی شے کا وجود نہیں تھا: ((کان اللہ و لم یکن شیء قبلہ و کان عرشہ علی الماء، ثم خلق السموات و الأرض و کتب فی الذکر کل شیء)) [1] ’’اللہ ہمیشہ سے ہے اور اس سے پہلے کوئی چیز نہیں تھی اور اس کا عرش پانی پر تھا، پھر اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور ذکر میں ہر چیز لکھی۔‘‘ اگر کائنات کی ہر چیز اس کا ظل اور سایہ ہوتی تو پھر وہ بھی ہمیشہ سے ہوتی، جبکہ قرآنی آیات اور احادیث یہ تصریح کرتی ہیں کہ وہ ہر چیز کا خالق ہے اور خلق کے معنی ہیں عدم سے وجود میں لانا۔ وحدۃ الوجود کا نظریہ پیش کرنے والا ابن عربی ملحد اور زندیق تھا اس کے ملحد اور زندیق ہونے پر صوفیا کے علاوہ علمائے اہل سنت و جماعت کا اتفاق ہے اس کی کتابیں ، فصوص الحکم اور المفتوحات المکیہ اس کے الحادی افکار و نظریات پر گواہ ہیں ، صوفیا صرف اس وجہ سے اس کا دفاع کرتے ہیں کہ وہ صوفی تھا۔ کلمۂ توحید سے وحدۃ الوجود پر استدلال: میں اوپر یہ بتا چکا ہوں کہ صوفیا وحدۃ الوجود کو توحید سے تعبیر کرتے ہیں اور کلمہ توحید ’’لا إلہ إلا اللہ‘‘ میں إلٰہ‘‘ کا ترجمہ ’’موجود‘‘ کرتے ہیں اس طرح اس کلمہ کا ترجمہ ’’نہیں ہے کوئی موجود مگر اللہ‘‘ کرتے ہیں ۔ ’’حکیم الامت‘‘ یا ’’مرشد تھانوی‘‘ وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود کی صوفیانہ توضیح کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’یہاں سے معلوم ہوا کہ حقیقت میں یہ اختلاف -وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود کا اختلاف- لفظی ہے مآل کار دونوں کا ایک ہے اور چونکہ اصل و ظل میں نہایت قوی تعلق ہوتا ہے اس کو اصطلاح صوفیہ میں ’’عینیت‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں اس مقام سے ’’لا موجود الا اللہ‘‘ اور ہمہ اوست‘‘ کے معنی معلوم ہو گئے۔‘‘[2] تھانوی عربی داں تھے، انہوں نے قرآن پاک کی تفسیر بھی لکھی ہے، ان کو یہ بات تو معلوم رہی ہو گی کہ ’’إلٰہ‘‘ کے معنی ’’موجود‘‘ کے نہیں آتے، پھر ’’موجود الا اللہ اور ہمہ اوست‘‘ کا باطل صوفیانہ نظریہ کہاں سے معلوم ہوا۔ تھانوی کے اس مغالطے سے تو اسلام کے ’’عقیدۂ توحید‘‘ کا سارا امتیاز ہی ختم ہو گیا، البتہ اس سے اس اہم سوال کا
[1] بخاری: ۳۱۹۱، ۴۲۱۸ [2] تجدید دین کامل: ص ۴۳۸