کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 511
یہ بات تو یقینی ہے کہ ممکن کا وجود حقیقی و اصلی نہیں ، عارضی و ظلی ہے اب اگر وجود ظلی کا اعتبار نہ کیا جائے تو صرف وجود حقیقی کا ثبوت ہو گا اور وجود کو واحد کہا جائے گا جو ’’وحدۃ الوجود‘‘ ہے اور اگر اس کا اعتبار کیجیے کہ آخر کچھ تو ہے بالکل معدوم تو ہے ہی نہیں ، گو غلبۂ نور حقیقی سے کسی مقام پر سالک کو نظر نہ آوے تو یہ وحدۃ الشہود ہے۔ قول فیصل: مولانا تھانوی نے ایک باطل نظریہ اور عقیدہ کو حق ثابت کرنے کے لیے جو غلط بیانی کی ہے اورجو مغالطے دیے ہیں اس پر تعجب بھی ہوتا ہے اور افسوس بھی؛ تعجب اس بات پر کہ حکیم الامت کا لقب رکھنے یا اس لقب سے شہرت پانے کے باوجود ان کی زبان اور قلم سے ایسی خلاف حق باتیں نکلیں کیسے اور افسوس اس پر کہ اتنے بڑے بڑے علامہ قسم کے لوگوں پر انہوں نے کون سا جادو کر رکھا تھا کہ وہ ’’وحی الٰہی‘‘ کی طرح ان کے ’’اکتشافات‘‘ پر آمنا و صدقنا کہہ دیتے تھے جبکہ قرآنی آیات اور احادیث ان کی تکذیب کرتی ہیں ؟ کائنات کا وجود ظلی نہیں ہے: کائنات جس کا ایک فرد انسان بھی ہے، ظلی نہیں ، حقیقی ہے اور انسان اور کائنات کے عارضی اور فانی ہونے سے اس کے اصلی وجود رکھنے کی نفی نہیں ہوتی، بلاشبہ ہمارا وجود اللہ تعالیٰ کی عنایت، فضل اور توفیق کی بدولت ہے اور ہم میں سے کوئی صفت کمال سے موصوف نہیں ہے، صفت کمال سے صرف اللہ تعالیٰ موصوف ہے، اور یہ بھی صحیح ہے کہ ہمارا اور کائنات کی ہر چیز کا وجود عارضی ہے، ازلی اور ابدی وجود صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ہے، مگر یہ ساری باتیں اس امر پر دلالت نہیں کرتیں کہ ہمارا وجود وجود الٰہی کا ظل اور سایہ ہے دراصل اللہ تعالیٰ ہمارا خالق ہے اور ہم اس کی مخلوق ہیں : خلق الانسان علمہ البیان اس نے انسان کو پیدا کیا اسے بیان کرنا سکھایا۔ (سورۂ رحمن: ۳-۴) اللہ تعالیٰ ہمارا رب ہے: ﴿اِنَّ ہٰذِہٖٓ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّ اَنَا رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْنِo﴾ (الانبیاء: ۹۲) ’’درحقیقت یہ ہے تمہاری امت جو ایک ہی امت ہے اور میں ڈ تمہارا رب ہوں ، سو میری عبادت کرو۔‘‘ زمین اور آسمانوں اور ان کے اندر پائی جانے والی تمام اشیاء کا اللہ تعالیٰ خالق ہے اور وہ اس کی مخلوق ہیں ، ظل، سایہ اور پرتو نہیں : ﴿مَا خَلَقَ اللّٰہُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَآ اِلَّا بِالْحَقِّ وَ اَجَلٍ مُّسَمًّی﴾ (الروم: ۸) ’’اللہ نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے نہیں پیدا کیا، مگر حق کے ساتھ اور ایک متعین دقت کے لیے۔‘‘ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو عدم سے وجود میں لایا: