کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 510
شیخ سرہندی نے ابن عربی کے نظریہ وحدۃ الوجود کے بارے میں یہاں تک صراحت کی ہے کہ تصوف کی تاریخ میں یہ نظریہ ایک نئی چیز ہے ابن عربی سے قبل کسی نے بھی اسے پیش نہیں کیا ہے۔[1] وحدۃ الوجود کے آثار بد: حافظ ابن القیم نے مدارج السالکین میں وحدۃ الوجود کے جو برے اثرات بیان کیے ہیں ان کا خلاصہ بیان کر دینا مناسب خیال کرتا ہوں تاکہ ایک متبحر عالم کی رائے سامنے آ جائے جو کتاب و سنت کا وسیع اور گہرا علم اور دین میں گہری بصیرت رکھنے کے ساتھ تصوف کی اصطلاحات اور اکابر صوفیا کے افکار و نظریات کے بارے میں غیر معمولی واقفیت رکھتے تھے، فرماتے ہیں : ’’وحدۃ الوجود کے عقیدہ کی رو سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہر موجود کے عین وجود سے عبارت ہے، وہی ہر وجود کی حقیقت اور اصل ہے، وہی دلیل بھی ہے، وجہ دلیل بھی اور مدلول علیہ بھی، خارج میں جو تعدد اور کثرت ہے وہ اعتبارات کا فریب ہے حقیقی اور وجودی نہیں ہے، وہی نکاح کرنے والا بھی ہے، وہ بھی جس سے نکاح کیا جاتا ہے، وہی ذبح کرنے والا بھی ہے اور وہ بھی جس کو ذبح کیا گیا ہے، وہی کھانے والا بھی ہے اور وہی وہ چیز بھی ہے جو کھائی جاتی ہے۔ اس نظریہ کی رو سے فرعون اور اس کی قوم کے لوگ مکمل ایمان رکھنے والے مؤمن تھے، اللہ کی حقیقت کے عارف تھے، اس عقیدہ کی رو سے بت پرست حق و صواب پر ہیں ، اور بتوں کی عبادت کر کے عین اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں اس کے بموجب ماں ، بیٹی، بہن اور غیر محرم عورتوں میں حلت و حرمت کے اعتبار سے جو فرق کیا جاتا ہے وہ بے معنی ہے، پانی اور شراب اور نکاح اور زنا میں کوئی فرق نہیں جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے وہ وجود کے ایک ہونے کے راز کے علم سے محروم ہیں ۔ ہاں تم پر یہ چیزیں حرام ہیں ، اس لیے کہ تم اس ’’توحید‘‘ کی حقیقت سے حجاب اور پردے میں ہو، انبیاء نے لوگوں پر اس راہ کو تنگ کیا ہے اور مقصود سے ان کو یا مقصود کو ان سے دور کر دیا ہے، جبکہ حقیقت اس کے علاوہ ہے جو لے کر وہ اس دنیا میں آئے تھے اور جس کی طرف لوگوں کو دعوت دیتے تھے۔‘‘[2] اس کفر و الحاد اور زندیقیت کے باوجود ابن عربی اکابر صوفیا کے نزدیک ’’شیخ اکبر‘‘ اور اللہ کا ولی تھا۔ تھانوی کے مغالطے: مولانا اشرف علی تھانوی بہت بڑے صوفی گزرے ہیں ان کو اپنے ’’مجدد‘‘ ہونے کا بھی احساس تھا، مسائل تصوف کے بارے میں وہ گول مول بات کرنے کے عادی تھے، انہوں نے ’’وحدۃ الوجود‘‘ کے بارے میں بھی اظہار خیال کیا ہے فرماتے ہیں :
[1] ص: ۱۴۲ [2] ص: ۳۴۹، ج: ۳