کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 51
صرف اس کو معبود بھی مانتے، مگر ان کی مت ماری گئی کہ انہوں نے اس علم کے بجائے، وہم وخیال، اور اٹکل پچو کی پیروی شروع کر دی۔ دوسری آیت جس سے منکرین حدیث واحد کی ظنیت پر استدلال کرتے ہیں ، اس کا تعلق بھی شرک وتوحید کے بیان سے ہے یہ سورۂ نجم کی اٹھائیسویں آیت ہے اور اس سے قبل کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ مشرکین نے جو مختلف بت بنا رکھے ہیں اور ان کو مختلف نام دے رکھے ہیں تو یہ اپنی اٹکل پچو اور خواہش نفس سے اس کے حق میں اللہ کی نازل کردہ کوئی دلیل نہیں ہے، پھر یہ بتایا ہے کہ آخرت میں فرشتے اپنی پرستش کرنے والوں کی کوئی شفاعت نہیں کریں گے۔ شفاعت تو صرف وہی کرے گا جس کو اللہ اس کی اجازت دے گا۔ آیت نمبر ۲۸ میں اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ فرشتوں کے نام عورتوں جیسے رکھتے ہیں ۔ پھر اس سلسلہ آیات کی آخری کڑی کے طور پر فرمایا: ﴿وَمَا لَہُمْ بِہٖ مِنْ عِلْمٍ اِِنْ یَتَّبِعُوْنَ اِِلَّا الظَّنَّ وَاِِنَّ الظَّنَّ لَا یُغْنِی مِنَ الْحَقِّ شَیْئًا﴾ (النجم: ۲۸) ’’(وہ جو عقائد بھی رکھتے ہیں ) ان کے متعلق ان کو کچھ بھی علم نہیں ہے۔ وہ تو محض گمان کی پیروی کر رہے ہیں اور بلاشبہ گمان حق کی کسی بات کو دفع نہیں کر سکتا۔‘‘ تو اس آیت میں ظن کو علم، ہدایت اور حق کی ضد کے طور پر استعمال کیا گیا ہے تو کیا حدیث واحد علم، یقین اور حق کے بجائے گمان، وہم، خیال، اٹکل اور اندازہ کا فائدہ دیتی ہے؟ ﴿ألا ساء ما یحکمون﴾ روایت حدیث یقینی ذریعہ علم پر مبنی ہے: حدیث کی روایت یقینی ذریعہ علم پر مبنی ہے اور یقینی ذریعہ علم سماع ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَ اللّٰہُ اَخْرَجَکُمْ مِّنْ بُطُوْنِ اُمَّہٰتِکُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ شَیْئًا وَّ جَعَلَ لَکُمُ السَّمْعَ وَ الْاَبْصَارَ وَ الْاَفْئِدَۃَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ﴾ (النحل: ۷۸) ’’اور اللہ نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے اس حال میں نکالا کہ تم کچھ نہ جانتے تھے اور اس نے تمہارے لیے کان، اور آنکھیں اور دل بنا دیے تاکہ تم شکر کرو۔‘‘ یہ آیت بتا رہی ہے کہ رحم مادر سے نکلنے والا بچہ ہر طرح کے علم سے کورا ہوتا ہے، اور اللہ تعالیٰ اس کے لیے کان، آنکھیں اور دل کی صورت میں جو اعضاء بنا کر اس کو رحم مادر سے نکالتا ہے وہی اس کے لیے ذرائع علم بنتے ہیں ، یہ ایسی بد یہی حقیقت ہے جس کے بیان کی ضرورت نہیں تھی اس لیے یہ اعضاء دیے جانے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کی تاکید پر بات ختم فرما دی۔ ﴿لَا تَعْلَمُوْنَ شَیْئًا ﴾ کے بالمقابل کان، آنکھیں اور دل کے ذکر سے یہ بات آپ سے آپ ثابت ہو جاتی