کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 509
ترجمہ:… ’’توحید شہودی صرف ایک ذات کے مشاہدے کا نام ہے، یعنی یہ کہ سالک کے مشاہدے میں ایک ذات کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں ہے اور توحید وجودی اس اعتقاد کا نام ہے کہ موجود صرف ایک ہے اس کے علاوہ کوئی اور شے موجود نہیں ہے اور تمام اشیاء غیر موجود ہونے کے باوجود ایک ہی وجود کے مظاہر ہیں ۔‘‘[1] شیخ احمد کی مذکورہ بالا عبارت میں جس ’’وحدۃ الوجود‘‘ کی تعریف کی گئی ہے وہ ابن عربی کا ’’وحدۃ الوجود‘‘ ہے اس پر شیخ سرہندی کا تبصرہ نقل کرنے سے پہلے یہ وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ سالک یا غیر سالک ذات الٰہی کا نہ مشاہدہ کرتا ہے اور نہ کر سکتا ہے، کیونکہ اللہ اس دنیا میں غیر مرئی اور غیر مشاہد ہے۔ البتہ انسان کائنات کے جو مظاہر اور اشکال دیکھتا ہے وہ ذات الٰہی کے مظاہر و اشکال نہیں ، اس کے وجود پر دلالت کرنے والے مظاہر اور اشکال ہیں ، مثال کے طور پر جب ہم ایک عمارت کو دیکھتے ہیں تو ہم کو یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کا کوئی بنانے والا ہے، اس لیے کہ کوئی عمارت آپ سے آپ وجود میں نہیں آتی، بلکہ کسی معمار کے بنانے اور تعمیر کرنے سے وجود میں آتی ہے، لہٰذا عمارت معمار کے وجود کی دلیل ہے، نہ کہ معمار کی ذات کا مظہر۔ وحدۃ الوجود پر سرہندی کی تنقید: وحدۃ الوجود کے نظریہ پر شیخ احمد سرہندی کی تنقید یہ ہے کہ ’’یہ انبیاء کے بیان کردہ تصور توحید کے منافی ہے، انبیاء کی تعلیم یہ نہیں کہ وجود صرف ایک ہے، ان کی تعلیم یہ ہے کہ خدا -معبود- ایک ہے، انبیاء یہ نہیں کہتے تھے کہ خدا کے علاوہ کسی بھی چیز کا وجود نہیں ہے وہ صرف یہ کہتے تھے کہ خدا کے سوا کوئی الٰہ -معبود- نہیں ہے، ابن عربی کے وحدۃ الوجود کے برعکس وہ یہ تعلیم دیتے تھے کہ کائنات کا اپنا وجود ہے اور یہ وجود خدا کے وجود سے مختلف ہے، خدا کائنات کی کسی بھی چیز میں شریک نہیں ہے وہ کائنات سے کلیۃً ماوراء ہے ۔ انبیاء جس مذہب کے داعی رہے ہیں وہ خدا اور کائنات کی دوئی اور ’’اثنینیت‘‘ پر مبنی ہے نہ کہ ان کی عینیت پر، ان کا مذہب مخلوق کو خالق سے اور بندے کو رب سے الگ رکھتا ہے، وہ کبھی یہ نہیں کہتے تھے کہ خالق ہی مخلوق ہے یا رب ہی بندہ ہے، انبیائے کرام انسان یا دیگر مخلوقات کے علم و ارادہ اور قدرت اور فعل کی نفی نہیں کرتے تھے اور نہ ان کے اعمال و افعال کو خدا کی طرف محمول کرتے تھے وہ یہ نہیں کہتے تھے کہ کائنات میں صرف ایک ہی فاعل یا ایک ہی وجود ہے۔[2] شیخ سرہندی کے اس طویل اقتباس سے یہ بات بالکل واضح ہو گئی کہ ابن عربی کا نظریہ وحدۃ الوجود اس توحید کے بالکل منافی ہے جس کی طرف دعوت دینے کے لیے اللہ تعالیٰ کے نبی اور رسول مبعوث کیے گئے تھے۔ سرہندی نے اس وحدۃ الوجود کے اسباب میں مراقبوں کی کثرت اور کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ کو ’’لا موجود الا اللہ‘‘ سمجھنا اور صوفیانہ عشق کو بھی شمار کیا ہے۔[3]
[1] ص ۱۳۴ [2] ص: ۱۳۸ [3] ص: ۱۴۱