کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 508
دعویٰ کیا۔ پھر معتزلہ اور جہمیہ فرقوں کی بعض جماعتوں نے بھی یہی مسلک اختیار کیا۔ صوفیا میں حلول کے عقیدہ کو ابومغیث حسین بن منصور حلاج -۲۴۴۷-۳۰۹ھ- کے ذریعہ رواج ملا اور نہایت تیزی سے صوفیا کا عقیدہ بن گیا، صوفیا میں جو لوگ بظاہر اس عقیدہ کو نہیں مانتے وہ بھی حلاج سے عقیدت رکھنے اور اس کو ولی ماننے کی وجہ سے اس کا قائل شمار ہوتے ہیں ۔[1] حلول کے بطن سے وحدۃ الوجود کا عقیدہ نکلا ہے یا حلول وحدۃ الوجود کا پہلا قدم ہے۔ اس عقیدہ کی رو سے اللہ اور وجود ایک ہی ہیں اور ناقابل تقسیم ہیں دوسرے لفظوں میں دنیا کا وجود عین اللہ کا وجود ہے۔ مسلمانوں میں وحدۃ الوجود کا نعرہ سب سے پہلے محی الدین محمد بن علی ابن عربی (۵۶۰-۶۳۸ھ) نے لگایا جو حلول سے زیادہ مقبول ہوا اور کسی نہ کسی شکل میں تمام صوفیا کا عقیدہ بن گیا ہے۔ حلول اور وحدۃ الوجود میں یہ فرق ہے کہ حلول میں غیر اللہ کا وجود تسلیم کیا گیا ہے اور اس میں اللہ کے حلول کرنے کی وجہ سے اللہ اور غیر اللہ میں اتحاد پیدا ہوا ہے، جبکہ وحدۃ الوجود کی رو سے وجود صرف ایک اور عالم عین اللہ کے وجود سے عبارت ہے۔ یعنی خارج میں اللہ کے وجود کے سوا کوئی وجود نہیں پایا جاتا۔ ڈاکٹر محمد عبدالحق انصاری کے بارے میں ، میں اوپر یہ لکھ چکا ہوں کہ وہ تصوف کی دنیا کے بہت بڑے صوفی شیخ احمد سرہندی کے افکار پر سند کا درجہ رکھتے ہیں اور خود بھی تصوف کا نہایت عمیق، وسیع اور غیر جانبدارانہ مطالعہ کیا ہے، اسی طرح ان کی کتاب ’’تصوف اور شریعت‘‘ اس موضوع پر مختصر ہونے کے ساتھ نہایت جامع ہے اور اس سے تصوف کے خدوخال بالکل واضح اور متعین ہو جاتے ہیں ، انہوں نے شیخ سرہندی کی طرح تصوف اور اس کی اصطلاحات کا تعارف کراتے ہوئے، دوسرے مصنفین کی طرح اس کے صرف انہیں پہلوؤں کو اجاگر نہیں کیا ہے جو یا تو قرآن و سنت کی تعلیمات سے متعارض نہیں ہیں ، یا کم از کم ان میں ان کی گنجائش ہے۔ ڈاکٹر انصاری نے اپنی اس کتاب کی پہلی جلد میں شیخ احمد سرہندی کے مکتوبات[2]سے ایک مختصر عبارت نقل کی ہے جس میں انہوں نے توحید شہودی اور توحید وجودی کی جامع و مانع تعریف کر کے ان دونوں میں فرق کو بیان کر دیا ہے واضح رہے کہ صوفیا ’’توحید‘‘ سے ’’وحدۃ‘‘ مراد لیتے ہیں اور ’’وحدۃ‘‘ کا لفظ استعمال کرنے سے احتراز کرتے ہیں تاکہ قاری یا مخاطب اس سے متنفر نہ ہو اور اسلامی اصطلاح ’’توحید‘‘ دیکھ کر یا سن کر ان کے دام فریب میں آسانی سے پھنس جائے، فرماتے ہیں : ’’توحید شہودی یکے دیدن است یعنی مشہود سالک جزیکے نباشد و توحید وجودی یک موجود دانستن است و غیر اور معدوم انگاشتند باوجود عدمیت مجالے و مظاہر آں یکے پنداشتن۔‘‘
[1] معجم الفاظ العقدۃ، ص: ۱۵۰-۱۵۱ [2] ج ۱ م، ۴۳ ص ۱۴۷