کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 507
تصوف اور اس کی اصطلاحات اسلام میں اجنبی ہیں : میں نے اوپر تصوف کی جن اصطلاحات کا ذکر کیا ہے ان کا مقصد اس کا تعارف کرانا تھا، ورنہ فنا و بقا، جمع و فرق، اتصال، جمع الشواہد، جمع الوجود اور جمع العین وغیرہ اسلام میں اجنبی ہیں ، اس لیے کہ قرآن و سنت میں ان کا ذکر نہیں آیا ہے اور نہ فقہا نے اپنی کتابوں میں ان کا ذکر کیا ہے، حتیٰ کہ خود صوفیا میں بھی بہت کم لوگ ان اصطلاحوں کو جانتے اور ان کے مدلولات کو سمجھتے ہیں ، اور اکابر صوفیا جنہوں نے ان کی تشریح کی ہے تو ان کے یہاں ان کے مدلولات اور تقاضوں کے بارے میں خاصا اختلاف پایا جاتا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ صوفیا کے ذوق و خیال یا مسلمانوں میں پھیلے ہوئے اغیار کے افکار، عقائد اور نظریات کی پیداوار ہیں ۔ دین و شریعت اور تزکیۂ نفس اور تہذیب اخلاق سے متعلق بعض صحابہ، تابعین اور پہلی صدی ہجری کے صلحاء اور زاہدین کے اقوال بھی ان صوفیانہ اصطلاحوں سے خالی ہیں ، دراصل یہ غیر واضح اور معقد تعبیرات اور اسلامی روح اور مزاج سے متصادم یہ اصطلاحات اس وقت کی پیداور ہیں جب زہد و توکل اور تزکیۂ نفس اور تہذیب اخلاق وغیرہ پر فلسفہ اور کلام کی چھاپ لگا دی گئی اور امت میں صلاح و تقویٰ کی شناخت رکھنے والے اور ایک خاص طرز کی دین داری سے موصوف افراد کتاب و سنت کی تعلیمات سے اس قدر بیگانے ہو گئے کہ اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلق کے لیے بھی فلاسفہ اور متکلمین کے خوشہ چین ہو گئے، جبکہ یہ دونوں اسلام سے نسبت کا دعویٰ کرنے والوں میں سب سے زیادہ اسلام سے دور رہے ہیں اور ہیں اور ان کے دلوں میں ایمان و یقین کی ٹھنڈک اور حلاوت کبھی داخل ہی نہیں ہوئی اس کی تصدیق کے لیے رازی، جوینی، کشمیری اور کوثری وغیرہ کی تحریریں دیکھی جا سکتی ہیں جو لاحاصل مجادلانہ بحثوں کی شاہکار ہیں ، اور ان میں سے بعض کے اعترافات اس بات کے گواہ ہیں کہ ان کو فلسفیانہ موشگافیوں اور متکلمانہ تاویلات سے حیرت و تذبذب کے سوا کچھ بھی نہیں ملا ہے۔ حلولی اور وحدۃ الوجود: حَلَّ یَحِلُّ حَلًّا وَّ حُلُوْلًا کے معنی ہیں : اترنا، نازل ہونا، تحلیل ہو جانا۔ اس کے اصطلاحی معنی ہیں : دو جسموں میں اس طرح اتحاد ہو جائے کہ ان میں تمیز کرنا ممکن نہ ہو، جیسے پانی کا دودھ میں مل جانا یا دودھ کا پانی میں ۔ بطور عقیدہ ’’حلول‘‘ کے معنی ہیں کہ نعوذ باللہ تعالیٰ، اللہ تعالیٰ ہر چیز اور ہر چیر کے ہر حصہ اور جز میں اس طرح مل گیا ہے اور تحلیل ہو گیا کہ اس چیز پر اللہ ہونے کا حکم لگانا درست ہے۔ اللہ تعالیٰ کے کائنات کی ہر چیز میں حلول کرنے کا عقیدہ کسی خاص فرقہ اور جماعت کا عقیدہ نہیں ہے، بلکہ متعدد فرقوں اور جماعتوں کا عقیدہ ہے۔ سب سے پہلے نصاریٰ نے یہ نعرہ لگایا کہ لاہوت اللہ ناسوت عیسیٰ علیہ السلام میں حلول کر گیا ہے۔ اسلام سے منسوب فرقوں میں ’’روافض‘‘ نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی ذات میں اللہ تعالیٰ کے حلول کا