کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 506
’’اگر اللہ اپنے آسمان والوں اور اپنی زمین والوں کو عذاب دے تو وہ ان کو عذاب دیتے ہوئے ان کے حق میں ظالم نہیں ہو گا۔‘‘ تو عرض ہے کہ یہ حدیث نہ قرآن کے خلاف ہے، نہ حدیث کے اور نہ عدلِ الٰہی کے اور اس پر منکرین کا اعتراض ان کی سطحیت اور کور چشمی کی دلیل ہے، کیونکہ حدیث میں یہ نہیں ہے کہ ’’اگر اللہ آسمانوں اور زمین والوں کو عذاب دے جو مستحق عذاب نہیں ہوں گے، تو وہ ان کے حق میں ظالم نہیں ہو گا۔‘‘ اگر حدیث میں یہ فقرہ ہوتا: جو مستحق نہیں ہوں گے تو یہ حدیث ان آیتوں اور حدیثوں کے خلاف ہوتی جن میں اللہ تعالیٰ سے ظلم کی نفی کی گئی ہے، لیکن اس فقرہ کے مذکور نہ ہونے کی وجہ سے نہ یہ حدیث عدلِ الٰہی کے خلاف ہے اور نہ اُن آیتوں اور حدیثوں کے جن میں اس کے ظالم ہونے کی نفی کی گئی ہے، بلکہ حدیث کا یہ ٹکڑا: ((وَ ہُوَ غَیْرُ ظَالِمٍ لَّہُمْ)) اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ ’’وہ مستحق عذاب ہوں گے۔ لہٰذا ان کو عذاب دے کر وہ ان کے حق میں ظالم نہیں ہو گا۔ دراصل قرآنی آیات کو سمجھنے اور ان میں اور احادیث میں تطبیق دینے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ایک مضمون سے متعلق تمام آیات اور احادیث کو سامنے رکھا جائے اس صورت میں قرآنی آیات اور احادیث میں تضاد اور قرآن اور حدیث کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ملے گا، لیکن چونکہ منکرین حدیث بدنیت ہوتے ہیں اس لیے وہ قرآن و حدیث کے ایسے ٹکڑے نقل کر کے دونوں میں تضاد یا اختلاف ثابت کرنے کی مذموم حرکت کرتے ہیں جن میں بظاہر اختلاف اور تضاد نظر آتا ہے، حقیقت میں کوئی اختلاف اور تضاد نہیں ہوتا۔ شیخ ابو اسماعیل ہروی نے ’’باب الجمع‘‘ کے تحت سورۂ انفال کی آیت: ﴿وَ مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی﴾ درج کر کے ’’وحدۃ الوجود‘‘ کے قائل صوفیا کے عقیدہ کی طرف اشارہ کیا ہے جو درحقیقت کسی نہ کسی شکل میں تمام اکابر صوفیا کا عقیدہ ہے، اس طرح انہوں نے یہ ثابت کرنے کی مذموم کوشش کی ہے کہ اللہ اور رسول میں غیریت اور فرق کے معدوم ہونے اور عینیت، اتحاد اور جمع ہونے کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ’’رمی‘‘ اللہ ہی کی رمی تھی، کیونکہ وجود صرف اللہ کا ہے رسول کا کوئی وجود نہیں ہے، لیکن یہ عقیدہ جہاں ایک ملحدانہ اور غیر اسلامی عقیدہ ہے وہیں یہ آیت کریمہ سے ثابت بھی نہیں ہوتا۔ آیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ’’رمی‘‘اذ رمیت کے اثبات اور ’’رمی‘‘ کی نفی و ما رمیتَ سے اس فعل کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل ہونے پر دلالت کرتی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غیر اللہ ہونے کا بین ثبوت ہے، جبکہ ’’وحدۃ الوجود‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ حق تعالیٰ جو مخلوق کی مشابہت اور مماثلت سے منزہ اور پاک ہے عین مخلوق ہے، بلکہ اللہ سبحانہ و تعالی ہی ہر موجود کے عین وجود، ماہیت اور حقیقت سے عبارت ہے، اس کے ماسویٰ کوئی وجود نہیں پایا جاتا۔