کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 505
مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ظلم کی صفت سے پاک ہے وہ کسی کی حق تلفی نہیں کرتا اور جو جیسا عمل کرے گا اس کا بدلہ پا کر رہے گا؛ اگر وہ نیک عمل کرے گا تو اللہ تعالیٰ اسے حسن جزا سے نوازے گا اور اگر برا عمل کرے گا تو اس کی سزا پائے گا۔ ﴿اِنَّہٗ مَنْ یَّاْتِ رَبَّہٗ مُجْرِمًا فَاِنَّ لَہٗ جَہَنَّمَ لَا یَمُوْتُ فِیْہَا وَ لَا یَحْیٰیo وَ مَنْ یَّاْتِہٖ مُؤْمِنًا قَدْ عَمِلَ الصّٰلِحٰتِ فَاُولٰٓئِکَ لَہُمُ الدَّرَجٰتُ الْعُلٰیo﴾ (طٰہٰ: ۷۵) ’’درحقیقت جو اپنے رب کے پاس مجرم بن کر آئے گا تو یقینا اس کے لیے جہنم ہے جس میں وہ نہ مرے گا اور نہ جیے گا اور جو اس کے پاس مومن بن کر آئے گا درآنحالیکہ اس نے نیک اعمال کیے ہوں گے تو یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے بلند درجات ہیں ۔‘‘ یہ آیتیں اعمال کی اضافت بندوں کی طرف کر کے ’’جبریہ‘‘ کے اس عقیدہ کو باطل قرار دے رہی ہیں کہ انسان عمل پر مجبور ہے۔ سورۂ حم سجدہ کی آیت میں لفظ ’’عبید‘‘ سے مراد اللہ تعالیٰ کے کونی بندے ہیں ، شرعی نہیں ، تکوینی طور پر عبودیت مومن اور کافر سب کو شامل ہے، لیکن اللہ کے شرعی بندے -عبید- وہ ہیں جو صرف اللہ کی عبادت کرتے ہیں ۔ ایک ضروری وضاحت: قرآن پاک میں اور احادیث میں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات سے ظلم کی نفی کی ہے، مثلاً: ﴿وَ لَا یَظْلِمُ رَبُّکَ اَحَدًاo﴾ (الکہف: ۴۹) ’’اور تیرا رب کسی پر ظلم نہیں کرتا۔‘‘ اور حدیث میں ہے: ((إِنِّیْ حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلٰی نَفْسِیْ))’’درحقیقت میں نے اپنی ذات پر ظلم کو حرام قرار دے دیا ہے۔‘‘ [1] تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ پر ظلم محال ہے، جیسا کہ جہمیہ -جہم بن صفوان کے پیرو- کا دعویٰ ہے یا اللہ تعالیٰ ظلم کر سکتا ہے، لیکن اپنی مدح کے طور پر اس نے اپنی ذات سے اس کی نفی کی ہے، لہٰذا اگر ظلم کرنا اس کے لیے ممکن نہ ہوتا تو پھر اس کا ترک ’’ممدوح‘‘ نہ ہوتا۔ خود حدیث قدسی: ((إِنِّیْ حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلٰی نَفْسِیْ)) اس کی ذات سے اس کے امکان پر دلالت کرتی ہے، لیکن وہ ظلم نہیں کرتا، اس لیے کہ وہ تمام تر عمدہ صفات سے موصوف ہے اور وہ اپنی ہر صفت میں ’’ممدوح‘‘ ہے اور ظلم صفتِ نقص ہے جس سے اس نے اپنے آپ کو پاک رکھا ہے۔ ایک اعتراض: منکرین حدیث ایک صحیح حدیث پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ وہ ’’عدل‘‘ کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناقابل قبول ہے، حدیث کے الفاظ ہیں : ((لَوْ إِنَّ اللّٰہَ عَذَّبَ اَہْلَ سَمٰوَاتِہٖ وَ أَرْضِہٖ، لَعَذَّبَہُمْ وَ ہُوَ غَیْرُ ظَالِمٍ لَّہُمْ)) [2]
[1] مسلم: ۲۵۷۷ [2] ابو داود: ۴۶۹۹۔ ابن ماجہ: ۷۷۔ مسند: ۲۱۱۰۱