کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 504
کفار کے چہروں اور آنکھوں تک پہنچانے والے آپ نہیں ، بلکہ اللہ تعالیٰ تھے، اس لیے فعل ’’رمی‘‘ کا اعتبار کر کے ’’اذ رمیت‘‘ جب تم نے پھینکا فرمایا- اور کفار تک پہنچانے کی نفی فرما کر ’’و ما رمیت‘‘ اور تم نے نہیں پھینکا، اس کو اپنی طرف منسوب کیا اور فرمایا: ’’و لکن اللہ رمی‘‘ اور لیکن اللہ نے پھینکا۔ جس طرح آیت کے اس فقرے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فعل رمی کی نفی کر کے اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنا فعل قرار دیا ہے، اسی طرح آیت کے شروع میں صحابہ کرام سے کفار کو قتل کرنے کی نفی کر کے اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی طرف منسوب فرمایا ہے: ﴿فَلَمْ تَقْتُلُوْہُمْ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ قَتَلَہُمْ﴾ ’’تو ان کو تم نے قتل نہیں کیا، بلکہ ان کو اللہ نے قتل کیا۔‘‘ لیکن آیت کے اس حصے میں ، زیر بحث حصہ کے برعکس کفار کو تیروں اور تلواروں سے قتل کرنے کا فعل طبعی تھا، نبی کا معجزہ نہ تھا، اس لیے اذ قتلتموہم جب تم نے ان کو قتل کیا- فرما کر فعلِ ’’قتل‘‘ کی نسبت ان سے نہیں کی، کیونکہ یہ معلوم تھا، اس کے برعکس نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کے چہروں کی طرف جو مٹھی بھر کنکریلی مٹی پھینکی تھی وہ ایک معجزاتی فعل تھا جو خارق عادت تھا طبعی نہ تھا اس لیے آپ کے لیے اس کا اثبات کر کے، پھر اس کی نفی فرمائی اور اس کو اپنا فعل قرار دیا، تاکہ یہ معلوم ہو جائے کہ معجزاتی فعل بھی نبی اللہ کے اذن سے انجام دیتا ہے، مگر اس کو وقوع پذیر اللہ اپنے فضل اور اپنی قدرت سے بناتا ہے، ورنہ ہر چہار جانب پھیلی ہوئی اور منتشر فوج کی جانب پھینکی ہوئی مٹھی بھر مٹی نہ سب کی آنکھوں میں ایک انسان کی قدرت سے داخل ہو سکتی تھی اور نہ سب کے لیے کافی ہی ہو سکتی تھی۔ آیت سے غلط استدلال: انسان کے اپنے افعال میں مجبور محض ہونے کا عقیدہ رکھنے والے فرقہ ’’جبریہ‘‘ کا دعویٰ ہے کہ ’’آیت میں فعل رمی کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سلب کر کے اللہ کی طرف منسوب کیا گیا ہے جس سے بندوں کی طرف افعال کو منسوب کرنے کا ابطال ہوتا ہے۔‘‘ لیکن یہ عقیدہ باطل ہے، کیونکہ قرآن پاک ایسی آیتوں سے بھرا ہوا ہے جن میں افعال کو بندوں کی طرف منسوب کیا گیا ہے اور ان کے نتیجے میں ان کے حق میں ثواب و عقاب کا حکم سنایا گیا ہے: ﴿مَنْ عَمِلَ عَمَلا صَالِحًا فَلِنَفْسِہٖ وَمَنْ اَسَائَ فَعَلَیْہَا وَمَا رَبُّکَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِیدِo﴾ (حٰمٓ السجدۃ: ۴۶) ’’جس نے نیک عمل کیا تو اپنے لیے اور جس نے برائی کی تو اس کا وبال اس پر ہو گا اور تمہارا رب بندوں پر بالکل ظلم کرنے والا نہیں ہے۔‘‘ اس آیت کی رو سے بندوں کے اعمال کا اعتبار ہے، چاہے وہ نیک ہوں یا بد اور اللہ تعالیٰ ان کی حق تلفی نہیں کرتا۔ ظلم کے اصل معنیٰ حق تلفی کرنے اور نقص حق کے ہیں اور ’’و ما ربک بظلام‘‘ نفی مبالغہ نہیں ، مبالغہ فی نفی الظلم ہے،