کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 503
والوں اور وحدۃ الوجود کا نعرہ لگانے والوں کو نہ صرف صحیح العقیدہ مانتے ہیں ، بلکہ ان کو اکابر امت مانتے ہیں ، حلاج اور ابن عربی جیسے ملحد و زندیق کو شیخ احمد سرہندی بھی ’’ولی‘‘ مانتے تھے، جبکہ ان کے افکار پر انہوں نے سخت تنقیدیں بھی کی ہیں اور ان کو ولی ماننے کا سبب یہ ہے کہ وہ روزانہ پانچ سو رکعتیں نفل نماز پڑھتے تھے اور ظالموں کا دیا ہوا کھانا نہیں کھاتے تھے۔[1] کیا شیخ احمد کو قرآن کی یہ آیت نہیں معلوم تھیں : ﴿وَلَقَدْ اُوحِیَ اِِلَیْکَ وَاِِلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکَ لَئِنْ اَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ وَلَتَکُوْنَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْنَo﴾ (الزمر: ۶۵) ’’اور درحقیقت تمہاری طرف اور ان لوگوں کی طرف جو تم سے پہلے گزرے ہیں یہ وحی کی گئی ہے کہ اگر تم نے شرک کیا تو تمہارا عمل اکارت ہو جائے گا اور یقینا تم خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہو جاؤ گے۔‘‘ اس آیت کی رو سے لوگوں میں الحاد، بے دینی اور شریک پھیلانے والے حلاج اور ابن عربی کی نمازیں اور نیک اعمال شمار کہاں ہو رہے تھے کہ ان کو ’’ولی‘‘ کہنا درست ہوتا، قرآن کے مطابق تو صرف اللہ کا مومن و متقی بندہ اس کا ولی ہے۔ (سورۃ یونس: ۶۲) مقام جمع پر قرآن سے استدلال: میں نے اوپر یہ بتایا ہے کہ ابواسماعیل عبداللہ انصاری ہروی نے اپنی کتاب ’’منازل السائرین‘‘ میں تصوف کے ہر مقام کی تفصیلات بیان کرنے سے پہلے قرآن پاک کی کوئی آیت درج کی ہے جس سے انہوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ یہ مقام قرآن پاک ہی سے ماخوذ ہے۔ باب الجمع کے تحت بھی انہوں نے ایسا ہی کیا ہے، پھر جمع کی تعریف کی ہے، مگر دوسرے ابواب یا مقامات کی طرح اس باب کے تحت بھی ان کی درج کردہ قرآنی آیت بے محل درج کی گئی ہے۔ آیت کریمہ ہے: ﴿وَ مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی﴾ (الانفال: ۱۷) ’’اور جب تم نے پھینکا تو تم نے نہیں پھینکا، بلکہ اللہ نے پھینکا۔‘‘ اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے جس فعل ’’رمی‘‘ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے اثبات کیا ہے اس کی نفی بھی کی ہے اور کسی فعل کا ایک ہی وقت میں اثبات اور نفی دونوں صحیح نہیں ہو سکتے، اس لیے دونوں ’’رمیوں ‘‘ میں فرق کرنا ضروری ہے، کیونکہ اللہ کا کلام ’’تضاد‘‘ سے پاک ہے۔ دراصل اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے جس ’’رمی‘‘ کا اثبات کیا ہے وہ ’’رمی‘‘ یعنی پھینکنے کا فعل ہے جو آپ نے انجام دیا تھا اور جس ’’رمی‘‘ کی آپ سے نفی کی ہے وہ اس کے نشانے تک پہنچنا اور نشانے پر لگنا ہے، مطلب یہ ہے کہ دشمن کے چہروں کی جانب کنکریاں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی پھینکی تھیں اس لیے اس کا اثبات ہے، لیکن ان کو
[1] تصوف او شریعت: ۲/۳۱