کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 502
’’جمع و اتحاد کے دو مدارج بتائے گئے ہیں ، پہلے درجے میں سالک اپنے کو خدا کی ذات میں متحد پاتا ہے، لیکن اس کے ساتھ وہ اپنے کو ایک معنی میں غیر بھی سمجھتا ہے۔ تمام صوفیہ اسے مقام جمع کہتے ہیں ۔ دوسرے درجے میں غیریت کا احساس بالکلیہ ختم ہو جاتا ہے۔ سالک کو محض ایک ایسے وجود واحد کا شعور رہتا ہے جو ہر طرح کے فرق و امتیاز سے بلند ہو، صوفیہ اسے جمع الجمع کا مقام کہتے ہیں ۔‘‘[1] ڈاکٹر انصاری کے مطابق اللہ اور بندے، معبود اور عابد، اور خالق اور مخلوق کے درمیان دوئی، تعدد اور غیریت باقی نہیں رہتی، یہ اگرچہ صوفی کا احساس ہے، حقیقت نہیں ، لیکن چونکہ فنا و بقا کے تجربے کے نتیجے میں پیدا ہونے والا اس کا یہ احساس اس کا عقیدہ بن جاتا ہے اور اسی عقیدے کے مطابق وہ راہ سلوک طے کرتا ہے اس لیے اس کی زندگی اپنی تمام ریاضتوں ، اعمال و اشغال اور اوراد و اذکار کے ساتھ زندیقیت اور الحاد میں ڈھل جاتی ہے، کیونکہ عقیدے میں فساد کی صورت میں صلاح و تقویٰ بھی فاسد ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر انصاری نے اس کے بعد متکلم صوفی ابو حامد غزالی کا ایک اقتباس نقل کیا ہے جس سے جمع الجمع کے مقام کے بارے میں صوفیا کے عقیدے کو سمجھنے میں مدد ملے گی: ’’جو صوفیہ اس مقام پر پہنچے ہیں ان کے بارے میں بلااستثناء سبھی نے کہا ہے کہ وہ کائنات میں ذات باری کے علاوہ اور کسی چیز کا وجود نہیں مانتے۔ ان میں سے بعض کے لیے یہ علمی ادراک ہوتا ہے اور بعض کے لیے حال اور ذوق کا مسئلہ ان کے لیے کثرت کے تمام جلوے یک لخت مٹ جاتے ہیں ، وہ فردانیت محضہ میں جذب ہو جاتے ہیں اور اپنی عقل کھو دیتے ہیں اور مبہوت و حیران رہ جاتے ہیں ، ان کو نہ کائنات کی کسی چیز کا ہوش رہتا ہے اور نہ اپنی ذات کا، ان کو سوائے خدا کے کچھ نظر نہیں آتا ان پر سکر کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے، جس میں کوئی ’’انا الحق‘‘ کہہ اٹھتا ہے، کوئی ’’سبحانی ما اعظم شانی‘‘ اور کوئی ’’لیس فی جبتی سوی اللّٰہ‘‘ کہنے لگتا ہے۔ اس کیفیت کو فنا یا فناء الفنا کہتے ہیں ، اس لیے کہ اس حالت میں آدمی کو اپنی ذات کا احساس باقی نہیں رہتا، بلکہ اسے احساس کھو دینے کا بھی احساس نہیں ہوتا، اگر یہ احساس باقی رہتا تو اپنی بے ہوشی کا بھی احساس ہوتا۔ صوفیہ اس مقام کو مجازاً اتحاد اور حقیقت کی زبان میں توحید کہتے ہیں ۔[2] اس لمبے اقتباس سے صوفیا کی ’’توحید‘‘ کی حقیقت معلوم ہو گئی، کیا اس توحید کا عقیدہ رکھنے والا قرآن و حدیث کی روشنی میں مسلمان ہے؟ یہ صحیح ہے کہ تمام صوفیا نہ ان تجربات سے گزرتے ہیں اور نہ ان کو خالق اور مخلوق کے درمیان اس ’’عینیت‘‘ کا احساس ہی ہوتا ہے، لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تمام صوفیا ان ملحدانہ تجربات سے گزرنے
[1] ص ۶۰، ج ۱ [2] بحوالہ تصوف اور شریعت: ۱/۶۰-۶۱۔