کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 501
اور دلائل کے ذریعہ اس کی غلطی واضح کی جائے گی۔‘‘ فنا کی ایک دوسری قسم مومنین اور اہل توحید کی فنا ہے، یہ غیر اللہ کی عبادت سے فنا اور اعراض اور غیر اللہ کی عبادت کا انکار ہے، معاصی کے ارتکاب سے فنا ہے، اللہ کی وحدانیت، اس کے لیے اخلاص، اس پر ایمان، اس کی شریعت کی پیروی، اس کے امر و نہی کی تعظیم سے عبارت ہے، یہی رسولوں اور ان کے پیرؤوں کی فنا ہے۔[1] صحیح نقطۂ نظر: صوفیا کی تعبیرات اور اصطلاحات ادائے مطالب میں قاصر رہنے کے ساتھ ان کے خاص عقائد اور افکار کی ترجمانی کرتی ہیں ان کو تصریحات کے بجائے ’’اشارئیے‘‘ کہنا زیادہ صحیح ہے، ان تعبیرات اور اصطلاحات کو، ان کی تاویل کر کے صحیح اسلامی عقائد کا ترجمان بنانے کے لیے بڑے تکلفات سے کام لینا پڑتا ہے، جیسا کہ حافظ ابن القیم اور علام ابن باز نے اپنی نیک نیتی کے جذبے سے کیا ہے، لیکن چونکہ ایسا کرنے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ صوفیا نے یہ تعبیرات اور اصطلاحات نیک مقاصد کے جذبے سے وضع کی ہیں ، جو امر واقعہ کے بالکل خلاف ہے، اس لیے ان کی عبارتوں کو تکلف کر کے صحیح معنی پہنانا اور ان کو صحیح مفہوم پر محمول کرنا ایک طرح سے ان کی ہم نوائی کرنا ہے جو اپنے نتائج کے اعتبار سے حد درجہ سنگین اور خطرناک ہے، کیونکہ جو لوگ تصوف کو درست مانتے ہیں ، یا کم از کم اس کے لیے اپنے دلوں میں نرم گوشہ رکھتے ہیں وہ ابن القیم اور ابن باز جیسے بلند قامت علمائے اسلام کے اس طرز عمل سے تصوف کے صحیح مسلک حیات ہونے پر استدلال کرتے ہیں ، جبکہ ضرورت اس کی ہے کہ تصوف کے مسئلے میں پوری وضاحت اور صاف گوئی کے ساتھ نیز دلائل کی زبان میں یہ بتا دیا جائے کہ تصوف اپنی بعض باتوں کے صحیح ہونے کے باوجود، عقیدہ و عمل کے اعتبار سے اسلام کے بالکل متوازی مسلک حیات ہے اور صوفیا، خاص طور پر ان کے اکابر کے عقائد غیر اسلامی، بلکہ مشرکانہ اور ملحدانہ ہیں اور عقیدۂ توحید جو اسلام کا طرۂ امتیاز ہے صوفیا کے یہاں پایا ہی نہیں جاتا۔ جمع: یہ تصوف کا نہایت اہم مقام ہے، بلکہ یہی صوفیا کے ’’تجربۂ فنا و بقا‘‘ کا حاصل ہے۔ جمع کے معنی دو یا دو سے زیادہ متفرق اور منتشر چیزوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جمع کر دینا اور ملا دینا ہے، اس کی ضد ’’فرق یا تفریق‘‘ ہے۔ فنا اور بقا کی بحث میں یہ بتایا گیا تھا کہ فنا سے مراد، سالک راہ سلوک کا مسافر- کے ارادے، صفات، خودی، بلکہ خود اس کے وجود کی نفی ہے اور بقا کے معنی ہیں کہ وہ اللہ کے ساتھ اس طرح جمع اور متحد ہو جائے کہ اس اس کی مشیت، صفات، حتیٰ کہ اس کا وجود بھی اس کے ساتھ ضم ہو جائے اور مل جائے۔ اس طرح جمع اتحاد کا مترادف اور ہم معنی ہے۔ ڈاکٹر ممد عبدالحق انصاری تحریر فرماتے ہیں :
[1] ص: ۵۷۰-۵۷۱