کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 500
بیداری کا رجحان پیدا ہونا شروع ہوا۔ ابو عبداللہ حارث محاسبی متوفی ۲۴۳ھ مطابق ۸۵۷ء پہلا صوفی ہے جس نے تصوف میں متکلمین اور فلاسفہ کے افکار داخل کیے، اس کے بعد حلول کا عقیدہ پیدا ہوا اور قرآن پاک کی باطنی تفسیر کا آغاز ہوا اور نئی نئی اصطلاحات وضع کی گئیں ۔ حافظ ابن القیم اہل توحید کے فنا کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ان کی فنا اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور قیومیت کے مظاہر کے مشاہدے میں غرق ہو جانے اور فنا ہونے سے عبارت ہے اس طرح وہ صرف اس کو خالق، رازق، معطی، مانع اور نفع و ضرر کا مالک سمجھتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ کے ما سوا کوئی اور نفع و ضرر کا مالک نہیں ہے، اسی کے ہاتھ میں تدبیر کائنات ہے اور بندہ اس کے مشاہدے میں اس کے ما سوا کے مشاہدے سے فانی اور معدوم ہو جاتا ہے اور فرائض اور نوافل کے ذریعہ بلند درجات حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اور الوہیت کے مسئلہ میں موحد کی فنا یہ ہے کہ وہ ما سوی اللہ کے ارادے، محبت، اس کی طرف انابت و رجوع، اس پر توکل، اس سے خوف و امید اور اس کی تعظیم و اجلال سے فانی اور معدوم ہو جائے اور اس کی یہ ساری صفات معبود حقیقی اللہ کے لیے خاص ہو جائیں ۔[1] علامہ شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ ’’منہاج الکرامہ فی شرح کتاب الاستقامہ‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں : ’’صوفیا فنا سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے مشاہدے کے سوا ہر چیز سے فانی ہو جانے اور غافل ہو جانے یا خاطر میں نہ لانے کی تعبیر کرتے ہیں ، وہ اپنے خیال میں اس کی عظمت و کبریائی اور اپنے اوپر اس کے حق کا مشاہدہ کرتے ہیں اور ان کے سوا ہر چیز کا شعور کھو دیتے ہیں اور ان کے سوا ہر چیز کو گھٹاتے اور کم کرتے جاتے ہیں ، یہاں تک کہ اس چیز نے ان کو بہت سی معصیتوں میں مبتلا کر دیا اور بالآخر ’’وحدۃ الوجود‘‘ تک پہنچا دیا، اور اپنی عقل کی پاسداری نہ کرنے کی وجہ سے ’’فنا‘‘ کے عقیدے نے ان کو عظیم ترین برائیوں اور سنگین بگاڑ سے ہم کنار کر دیا اور انہوں نے اللہ کے اوامر و نواہی کو محل فکر و نظر بنانے کے بجائے ’’جمع‘‘ کو محل فکر و نظر بنا لیا اور اس اعتبار سے اللہ کی ذات میں غور و فکر شروع کر دیا کہ وہی سب کچھ ہے اور اپنی حیرانی اور خود فراموشی میں طاعت اور نافرمانی، خیر و شر، عبد اور معبود اور اللہ اور عابد کے مابین تمیز کھو بیٹھے اس طرح وہ بہت بڑی برائی اور سنگین فساد کے مرتکب ہو گئے اور ایسی غلطیاں کرنے لگے جن کا انجام غیر مستحسن ہے۔ فنا کا یہی وہ پہلو ہے جس کو مصنف رحمہ اللہ نے -ابن تیمیہ- بیان کیا ہے اور لکھا ہے کہ ایسا عقیدہ رکھنے والا گمراہ اور دائرۂ اسلام سے خارج ہے، اِلا یہ کہ وہ نادان ہو اور نادانی میں ایسی باتیں کہہ گیا ہو، ایسی صورت میں اس کو بتایا جائے گا
[1] ص:۲۸۹-۲۹۰، ج ۳