کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 50
قرآن سے استدلال کرتے، میں ایک بار پھر مختصراً ظن اور یقین کے معانی بیان کر دینا چاہتا ہوں جس کے بعد یہ دکھاؤں گا کہ مذکورہ دونوں آیتوں میں ظن اور حق کن معنوں میں استعمال ہوئے ہیں ۔ پھر یہ ثابت کروں گا کہ ’’حدیث واحد‘‘ ظن کا نہیں ، بلکہ یقین کا معنی دیتی ہے۔ ظن اور یقین کا مفہوم: ظن کے معنی ہیں : گمان، خیال، شک، اٹکل ، اندازہ وغیرہ اگر اس کا تعلق کسی ایسی چیز سے ہو جو شرعا اور عقلا ثابت ہو تو پھر یہ یقین کا معنی دیتا ہے، جیسا کہ قرآن پاک میں ہے: ﴿الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّہُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّہِمْ وَ اَنَّہُمْ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ﴾ (البقرۃ: ۴۶) ’’وہ جو یہ یقین رکھتے ہیں کہ در حقیقت وہ اپنے رب سے ملنے والے ہیں اور یقینا وہ اس کی طرف لوٹنے والے ہیں ۔‘‘ ظن کے مترادفات ہیں : شک، تردد، حیرت، خیال، وہم وغیرہ اور ظن کی ضد ہیں : یقین، وثوق، تاکید، علم، اور حق وغیرہ۔ ظن کی کوئی علمی اور یقینی بنیاد نہیں ہوتی۔ منکرین حدیث، یا حدیث واحد کو شرعی دلیل نہ ماننے والے قرآن پاک کی جن دو آیتوں سے استدلال کرتے ہیں وہ محل استدلال نہیں ہیں ۔ ان میں سے پہلی آیت سورۂ یونس کی ہے جس میں اللہ کے ساتھ دوسرا معبود بنانے والوں کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ بتوں کی عبادت کرنے والے ظن کی پیروی کر رہے ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ ان کا یہ شرک کسی علم یا کسی آسمانی کتاب یا کسی رسول کی تعلیم پر مبنی نہیں ہے۔ محض وہم وخیال اور باپ دادا کی تقلید ہے، جبکہ صرف اللہ تعالیٰ کو معبود بنانا حق اور تمام انبیاء اور رسولوں کی بعثت کا مقصد حقیقی ہے۔ آیت کا صحیح ترجمہ ہے: ﴿وَ مَا یَتَّبِعُ اَکْثَرُہُمْ اِلَّا ظَنًّا اِنَّ الظَّنَّ لَا یُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْئًا﴾ (یونس: ۳۶) ’’ان کے بیشتر لوگ صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں ، در حقیقت ظن حق کو دفع نہیں کر سکتا۔‘‘ آیت میں غیر اللہ یا بتوں کو معبود بنانے والوں کی اکثریت کو ظن کا متبع قرار دیا گیا ہے سب کو نہیں جس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ روسائے قریش نے تو بت پرستی اٹکل پچو سے اختیار کی ہے، رہے عوام تو وہ ان کی تقلید میں ایسا کر رہے ہیں ۔ یاد رہے کہ اس آیت سے پہلے پانچ آیتیں ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید ربوبیت بیان کی ہے اور آیت نمبر ۳۱ کا آغاز مشرکین سے اس سوال سے کیا ہے کہ: کون ہے جو تمہیں آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے، کون ہے جو کانوں اور آنکھوں کا مالک ہے اور کون زندہ کو مردہ سے اور مردے کو زندہ سے نکالتا ہے اور کون ہے جو ہر کام کی تدبیر کرتا ہے، وہ ضرور جواب دیں گے کہ اللہ! معلوم ہوا کہ جب کفار یہ جانتے اور مانتے ہیں کہ رب کائنات تنہا اللہ تعالیٰ ہے تو پھر ان کو چاہیے تھا کہ وہ