کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 499
ہونے والا نتیجہ بھی باطل ہے۔ صوفیا اسلامی عقائد کا علم ہی نہیں رکھتے کہ وہ عالم فنا و بقا میں تجرباتی قدم رکھنے والے سالک کے عقائد درست کریں ، جہری ذکر غیر منصوص ہونے کی وجہ سے مردود ہے، اسم ذات ’’اللہ‘‘ کا مفرد ذکر اپنے مطلب و مقصود کے غیر واضح ہونے اور کتاب و سنت میں غیر مذکور ہونے کی وجہ سے ناقابل قبول ہے، عشق الٰہی قرآن و حدیث میں مذکور نہ ہونے اور شہوانی جذبہ ہونے کی وجہ سے مطلوب نہیں مردود ہے اس لیے دل میں اس عشق کی بھڑکنے والی آگ سالک کو جلا کر خاکستر کر دے گی، صوفیا آیات صفات کو حقیقی معنوں میں نہیں لیتے، بلکہ متکلمین کے طرز پر ان کی تاویل کرتے ہیں اس طرح ان کا ورد سالک کے لیے یا تو بے سود ہو گا یا اس کو غلط راہ پر ڈال دے گا۔ چونکہ خارجی دنیا میں کوئی شے اللہ کے مانند نہیں ہے اس لیے اس کو اس دنیا میں چشم تصور سے بھی نہیں دیکھا جا سکتا اس کی جو معرفت ممکن ہے وہ اس کے منصوص اسماء و صفات کے علم کے ذریعہ ممکن ہے۔ البتہ فنا و بقا کے اس تجربہ یا عملی طریقہ سے جو چیز یقینی طور پر حاصل ہوتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ نعوذ باللہ ’’اتحاد‘‘ کا عقیدہ ہے جس کا معروف نام ’’وحدۃ الوجود‘‘ کا عقیدہ ہے یعنی وجود صرف ایک ہے یعنی اللہ تعالیٰ کا وجود اس کے سوا کوئی وجود نہیں ۔ اس کی طرف فنا و بقا کے مذکورہ بالا تجربہ کے آخر میں واضح اشارہ موجود ہے: پھر مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کی ذات میں ضم ہو جائے گا۔‘‘ حلول اور وحدۃ الوجود کی تفصیلی وضاحت آگے آ رہی ہے۔ فنا و بقا کی مقبول صورت: حافظ ابن القیم نے مدراج السالکین میں فنا و بقا کے مسئلہ میں بڑی تفصیل سے بحث کی ہے اور ہروی کے سورۂ رحمن کی آیت: ﴿کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍo وَیَبْقَی وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلَالِ وَالْاِِکْرَامِo﴾ سے اس پر استدلال کو بے محل قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اس آیت مبارکہ میں تمام مخلوق کے فنا اور ہلاک ہونے اور اللہ عز و جل کے ہمیشہ باقی رہنے کی جو خبر دی گئی ہے وہ صوفیا کا فنا و بقا نہیں ہے۔ پھر انہوں نے اس کو صحیح مفہوم پر محمول کیا ہے، لکھتے ہیں : کتاب اور سنت میں اور صحابہ اور تابعین کے کلام میں نہ تو فنا کی مدح آئی ہے اور نہ مذمت اور صوفیا جس معنی میں اسے استعمال کرتے ہیں اس معنی میں اس لفظ کا استعمال نہیں ہوا ہے حتیٰ کہ متقدمین مشائخ طریق نے بھی اس کا ذکر نہیں کیا ہے اور انہوں نے نہ تو اس کو مقصد و غایت قرار دیا ہے اور نہ مقام؛ جبکہ متقدمین اس میدان میں کمال کے زیادہ حق دار تھے اور ہر عمدہ مقصد کی طرف سبقت کرنے والے تھے۔‘‘ متقدمین سے مراد پہلی صدی ہجری کے صلحاء ہیں جو کتاب و سنت کی سختی سے پابندی کرتے تھے اور صلاح و تقویٰ اور احسان و تزکیۂ نفس اور زہد و توکل کی جانب خصوصی توجہ دیتے تھے؛ لیکن معروف معنی میں صوفی نہ تھے اور نہ انہوں نے اس کے لیے کوئی خاص اصطلاح ہی ایجاد کی تھی، دوسری صدی ہجری میں عبادت میں غلو، گوشہ نشینی، کثرت صوم اور شب