کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 498
کا سب سے کم علم رکھنے والے بھی ہیں اور سنت سے سب سے زیادہ دور بھی۔ فنا و بقا کا عملی طریقہ: ڈاکٹر محمد عبدالحق انصاری نے شاہ ولی اللہ کی کتاب ’’القول الجمیل‘‘ کے حوالہ سے صوفیا کے تین بڑے سلسلوں : قادریہ، چشتیہ اور نقشبندیہ میں رائج فنا و بقا کے عملی طریقہ کو بیان کیا ہے، جس کا خلاصہ حسب ذیل ہے: ’’سالک اپنے عقائد درست کرنے، بری عادتیں ترک کرنے اور فرائض و نوافل کا اہتمام کرنے کے ساتھ اسم ذات ’’اللہ‘‘ کا ذکر بالجہر کرے جو صوفیا کے بتائے ہوئے مخصوص طریقہ سے ہونا چاہیے اس سے ذہن اللہ تعالیٰ پر مرکوز ہو جائے گا اور عشق الٰہی کی آگ دل میں بھڑک اٹھے گی۔‘‘ اس مرحلہ کے بعد سالک مراقبہ کرے اور اس میں یہ تصور کرے کہ اللہ اس کے سامنے ہے اور اس کو دیکھ رہا ہے، اللہ سب کچھ سن رہا ہے اور اللہ تعالیٰ میرے ساتھ ہے اور ساتھ ہی چشم تصور میں یہ دیکھے کہ اللہ تعالیٰ سچ مچ سامنے موجود ہے اور مجھے دیکھ رہا ہے اللہ تعالیٰ کی لامکانیت کے اثبات کے ساتھ اس کی ذات میں اتنا غور و فکر کرے کہ اس میں جذب ہو جائے، ساتھ ہی آیاتِ صفات میں سے کسی آیت کا ورد کرے، مثلاً ﴿ہُوَ مَعَکُمْ أَیْنَمَا کُنْتُمْ﴾ (الحدید: ۴) ’’وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں بھی تم ہو۔‘‘ ﴿فَأَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ﴾ (البقرۃ: ۱۱۵) ’’تو تم جس طرف بھی رخ کرو وہیں اللہ کا چہرہ ہے۔‘‘ ﴿وَ نَحْنُ أَقْرَبُ إِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِo﴾ (قٓ: ۱۶) ’’اور ہم اس کی رگ جاں سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں ۔‘‘ اس طرح سالک پر اللہ تعالیٰ میں استغراق کا عالم طاری ہو جائے گا اور وہ خود کو خدا میں جذب ہوتا محسوس کرنے لگے گا۔ اگر سالک آیت کریمہ ﴿کُلُّ شَیْئٍ ہَالِکٌ اِلَّا وَجْہَہٗ﴾ (القصص: ۸۸) ’’ہر چیز ہلاک ہو جانے والی ہے بجز اس کے چہرہ کے۔‘‘ کا ورد کرے گا تو دنیا سے بے رغبتی پیدا ہو جائے گی اور اس پر سکر و محویت کا عالم طاری ہو جائے گا، پھر مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کی ذات میں ضم ہو جائے گا۔‘‘[1] تبصرہ: ڈاکٹر انصاری نے فنا و بقا کا عملی طریقہ جس کتاب کے حوالہ سے بیان کیا ہے وہ ایک ایسے عالم کی تصنیف ہے جس کی دقت اور صحت بیانی مسلم اور ناقابل تردید ہے میری مراد شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ سے ہے، جنہوں نے اس طریقہ کو تصوف کے معروف تین سلسلوں : قادریہ، چشتیہ اور نقشبندیہ میں رائج اور معمول بہ قرار دیا ہے اس طرح اس پر تبصرہ تصوف ہی کے طریقۂ فنا و بقا پر تبصرہ ہو گا اور کوئی اس تبصرہ کو یہ کہہ کر ردّ نہیں کر سکے گا کہ یہ تصوف کا طریقہ نہیں ہے۔ اس طریقہ میں جن اعمال کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں وہ سب خانہ ساز ہیں اور باطل ہیں ، لہٰذا ان سے برآمد
[1] ص: ۵۷-۵۹، ج ۱