کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 497
شیخ ہروی نے ’’باب الفناء‘‘ کے تحت جو کچھ لکھا ہے اس کا آغاز سورۂ رحمن کی اس آیت مبارکہ سے کیا ہے: ﴿کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍo وَیَبْقَی وَجْہُ رَبِّکَ﴾ (الرحمٰن: ۲۶-۲۷) ’’زمین پر جو کچھ ہے سب فنا ہو جانے والا ہے اور تیرے رب کا چہرہ باقی رہے گا۔‘‘ تو عرض ہے کہ فنا و بقا نہ مذکورہ قول سے عبارت ہے اور نہ قرآن کی اس آیت میں تمام مخلوق کے فنا ہو جانے اور اللہ کے باقی رہنے کی خبر اس پر دلالت کرتی ہے۔ اسی طرح عبدالکریم قشیری نے اپنے ’’رسالہ‘‘ میں فنا و بقا کی جو تعریف کی ہے وہ بھی حق و باطل کا مجموعہ ہے۔ دراصل فنا و بقا وحدۃ الوجود کی جانب سالک -صوفی- کا پہلا قدم ہے ڈاکٹر انصاری نے اس کا تعارف نہایت مختصر مگر عام فہم اسلوب میں کرا دیا ہے، پہلے انہوں نے نہایت جرأت کے ساتھ یہ اعلان کر دیا ہے کہ ’’فنا فضائل اخلاق کے اختیار کرنے اور رذائل سے بچنے یا اللہ کی اطاعت اور اس کی نافرمانی سے اجتناب کا نام نہیں ، بلکہ فنا ایک حال ہے، یہ ایک احساس ہے اور ایک کیفیاتی تجربہ ہے۔‘‘ اس کے بعد تحریر فرماتے ہیں : ’’فنا اور بقا ایک ہی کیفیت کے دو رخ ہیں ؛ اس کیفیت پر ایک زاویے سے نظر ڈالیے تو یہ سالک کی نفی ہے، اس کے ارادے، صفات، خودی، بلکہ خود اس کے وجود کی نفی ہے دوسرے زاویے سے دیکھئے تو یہ خدا کے ساتھ سالک کا جمع ہونا اور اس طرح متحد ہونا ہے کہ اس کی مشیت، صفات اور حتیٰ کہ اس کا وجود بھی اس ذات کے ساتھ ضم ہو جائے۔‘‘ [1] ڈاکٹر انصاری نے اسلام کے عقیدۂ توحید کے تناظر میں فنا و بقا کے اس تجربے پر کوئی حکم نہیں لگایا ہے، لیکن اپنی اس کتاب کے مقدمے میں اس کے بارے میں شیخ احمد سرہندی کی رائے نقل کی ہے: ’’صوفیہ کا طریقہ فنا و بقا سے عبارت ہے، یہی روحانی تجربہ اس کا امتیازی پہلو ہے، جہاں تک طریقۂ نبوت کا تعلق ہے، تو اس میں اس تجربے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔‘‘[2] بات بالکل صاف ہو گئی، جس روحانی تجربہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور طریقہ سے کوئی تعلق ہی نہ ہو، کیا وہ اسلامی روحانی تجربہ ہو سکتا ہے اور کیا اسلامی نقطۂ نظر سے ایسا تجربہ کرنا جائز بھی ہے، بطور عقیدہ اختیار کرنا تو دور کی بات ہے، کیونکہ قرآن کے مطابق امت کے مزکی اور مربی تنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے، اپنی حیات پاک میں آپ یہ قرآنی فریضہ اپنے قول و فعل سے انجام دیتے تھے اور اس دنیا سے آپ کی رحلت کے بعد یہ فریضہ آپ کی محفوظ قولی اور فعلی سنت کو منتقل ہو گیا ہے جس کا صحیح علم رکھنے والے محدثین تھے، ہیں اور قیامت تک رہیں گے، نہ کہ صوفیا جو مسلمانوں میں سنت
[1] ص: ۶۰ [2] ص: ۸