کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 496
فنا و بقا: ڈاکٹر محمد عبد عبدالحق انصاری مشہور صوفی بزرگ شیخ احمد سرہندی کے افکار پر سند کا درجہ رکھتے ہیں ان کی کتاب تصوف اور شریعت اس اعتبار سے ایک منفرد کتاب ہے کہ اس میں تصوف کا بے لاگ جائزہ لیا گیا ہے اور اس کی بہت سی باتوں پر تنقید کرتے ہوئے ان کو غیر اسلامی بتایا گیا ہے، بایں ہمہ ان کی اس کتاب میں تصوف کو ایک روحانی طریقہ تسلیم کیا گیا ہے۔ اسلام ایک مکمل دین ہے اس میں عقیدے سے لیکر عمل تک ہر چیز کے لیے مکمل ہدایت موجود ہے وہ انسان کے جسم و روح ہر ایک کے تزکیہ اور تطہیر کا اپنے اندر سامان رکھتا ہے۔ لہٰذا اسلامی نقطۂ نظر سے کسی غیر اسلامی مسلک حیات کو روحانی کہہ کر قبول کرنا یا اس کی تحسین کرنا اور کسی دوسرے کو غیر روحانی کہہ کر ردّ کرنا غیر مقبول ہے اور اس سے اسلام کے غیر کامل ہونے کا تاثر ملتا ہے، اور اس عقیدہ کا اظہار ہوتا ہے کہ اس میں قلب و روح کی تطہیر کا کوئی سامان نہیں ہے۔ تصوف میں جو باتیں اسلامی ہیں اور جن کا ذکر کتاب و سنت میں آیا ہے وہ بھی اپنی ٹھیٹھ اور خالص شکل میں نہیں ہیں ؛ احسان، تزکیۂ نفس اور تہذیب اخلاق وغیرہ بھی جو اسلام کے نمایاں عنوان ہیں اور جن کا نعرہ لگا کر صوفیا تصوف کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں یہ بھی ان کے یہاں اپنا خاص مفہوم رکھتے ہیں اور ان کے حصول کے طریقے ان کے مشائخ کے بنائے ہوئے ہیں ۔ دراصل جو چیزیں تصوف کو غیر اسلامی یا اسلام کے متوازی ایک دین قرار دیتی ہیں وہ ان کے عقائد ہیں ؛ اسلام میں عقائد کا شمار اجتہادی مسائل میں نہیں ہوتا کہ ان میں صواب و خطأ کے احتمال کا دعویٰ کر کے ان کو نظر انداز کر دیا جائے، اسلام میں عقائد منصوص ہیں لہٰذا جو عقیدہ بھی کتاب و سنت کی نصوص سے متصادم ہو گا وہ مسترد کر دیا جائے گا خاص طور پر توحید کا عقیدہ خالص اور بے آمیز ہونا چاہیے، اگر اس میں شرک اور الحاد کی ایک بات بھی داخل ہو گئی تو پھر توحید توحید نہیں رہی اور اس توحید کے مدعی کے اعمال بھی ناقابل قبول ہو گئے، اور افسوس یہ ہے کہ صوفیا کے یہاں وہ توحید پائی ہی نہیں جاتی جس کی دعوت دینے کے لیے تمام انبیاء اور رسول مبعوث کیے گئے تھے اور جو توحید اس آخری دین، اسلام کا طرۂ امتیاز ہے۔ شیخ ابو اسماعیل ہروی کی کتاب ’’منازل السائرین‘‘ میں مذکور توحید کے مسائل کا میں نے جو بے لاگ جائزہ لیا ہے اس سے میرے اس دعوے کی تائید ہوتی ہے اور میں صوفیا کے جن عقائد کو بیان کرنے جا رہا ہوں ان سے میرا یہ دعویٰ مزید منقح ہو جائے گا۔ تصوف میں فنا و بقا کا عقیدہ سارے فساد کی جڑ ہے، ڈاکٹر انصاری کے مطابق بعض صوفیا کا دعویٰ ہے کہ ’’نیکیاں کرنا، اور برائیوں سے اجتناب کرنا، یا اللہ تعالیٰ کی فرماں برداری کرنا اور اس کی نافرمانی سے بچنا فنا و بقا ہے۔‘‘[1]
[1] تصوف اور شریعت: ۱/۵۷